Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. AIDS

AIDS

ایکوائرڈ ایمیون ڈیفیشنسی سینڈروم

HIVوائیرس جو ایڈز کا سبب بنتا ہے اس وقت دنیا کی سب سے سنگین وبا ہے۔ UNAIDS کی رپوٹ کے مطابق 2020 میں پوری دنیا میں 37.7 ملین لوگ متاثر ہوئے جن میں 36 ملین بالغ اور 1.7 ملین نا بالغ افراد شامل تھے۔ خواتین کیسزز کی تعداد 53 فیصد ہیں۔ 2020 میں اس وبا سے 1.5 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے جو کہ 2010 کے مقابلہ میں بہت کم تھے۔ امریکن فاونڈیشن آف ایذز کے مطابق صرف 2012 میں 2.4 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔

2020 میں HIV ٹیسٹنگ عالمی طور پر ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ اس مرض میں مبتلا نواسی فیصد افراد کو ایڈز کے حوالے سے جنکاری تھی۔ اس ٹیسٹنگ کا مقصد Dark countries تک ویکسینز اور دوسری ضروریات کا پہچانا تھا۔ کیونکہ اس وقت 9.5 میلن لوگوں کو ریٹروواٹرل تھراپی تک رسائی نہیں ہے۔ آفریقہ کے کچھ ممالک میں مقامی طور پر بنی والی غیر موثر ویکیسن استعمال ہونے کا انکشاف ہوا تھا جس کے فورا بعد WHO نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سب صحارا افریقہ میں اپنی نگرانی ٹیکے لگانے کا آغاز کیا جس سے معلوم ہوا کہ Nal nutrition کے شکار افراد اس مرض سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہر ہفتہ دنیا بھر میں 15-25 سال کی عمر تک لگ بھگ پانچ ہزار نوجواں خواتین HIV کا شکار ہوتی ہے جب کہ سب حصارا افریقہ میں ان کیسزز کی تعداد 63 فیصد ہیں۔

دنیا بھر میں WHO کی ٹیم ایڈز پر کام کررہی ہے۔ 2012 کے بعد سے کیسزز میں نمایاں کمی آئی ہے اور 2010 میں اس مرض سے 1.2 میلن لوگ ہلاک ہوئے تھے جب 2020 میں صرف چھ لاکھ اسی ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔۔

پاکستان بھی متاثر زدہ ممالک میں شامل گو کہ پاکستان میں HIV کی پھیلاو کا تخمیہ ۱ فیصد سے بھی کم ہے۔ 2019 تک صرف تینتیس ہزار ایک سو انتیس افراد نیشینل ایڈز کنٹرول پروگرام (NACD) کے ساتھ رجسٹرز تھے۔ پاکستان میں ایچ آئی وی کی وبا کلیدی آبادیوں میں مرتکز ہے۔ وہ لوگ جو منشیات کا ٹکیہ لگاتے ان میں 38.4 فیصد اود بد قسمتی homosexuality کی وجہ سے 7 فیصد لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

منشیات ایک بڑا مسئلہ ہے سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والوں میں یہ وائیرس ہونے کی وجہ سے یہ بآسانی ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے اور معاشرے میں قدم جما رہا ہے۔ ART vaccine کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں خطے کے تمام ممالک سے زیادہ تیز سے HIV پھیل رہا ہے۔ چند سال پہلے کوٹ عمرانہ (ضلع سرگودھا) میں صرف چھ مہنیے کے اندر کیسزز 29 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد ہو گئے تھے۔ لاڈکانہ ضلع میں HIV کے اضافے نے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام اور NCAP کی کارکردگی پہ شکوک پیدا کیں ہیں۔ لاڈکانہ میں صرف چھبیس ہزارچالیس افراد کی ٹیسٹنگ کی گئی تھی جس میں سے سات سو اکاون افراد متاثر ہوئے تھے اور حیرانگی بات یہ کہ اس میں سے 80 فیصد یعنی چھ سو چار بچے اس مرض میں مبتلا تھے۔

اس منظر نامے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے پاکستان کے تمام شہروں کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے NACP کا کام ہی HIV کے مریضوں کو رجسٹرز کرنا ہے وہ کیوں اپنے کام سے لاعلم ہے؟لاڈکانہ اور تھر پار میں جو کیسیز رپورٹ ہوئے تھے کیا ان تک ART ویکسین پہنچائی گئی ہے؟ عالمی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان میں تقریبا اسی ہزار ایڈز کے مریض این اے سی ایچ کے ساتھ رجسٹرز نہیں ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے این اے سی ایچ کو خبردار کیا ہے اگر اگر مریضوں تک علاج کے الات اور ویکسین بروقت نہیں پہنچائی گئی تو کیسزز کافی حد تک بڑھ سکتے ہیں۔ 2018 کی UNAIDS کی رپورٹ میں کافی مسائل کو اجاگر کیا کیا ہیں ان میں، وزارت صحت کی صوبوں میں منتقلی، وفاقی و صوبائی حکومتوں میں نا ہم آہنگی، صحت حکام کی طرف سے کمنٹمٹ کا نا ہونا اور سفارشی اور نا اہل افراد کا اس شبعہ سے وابستگی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ یہ مسائل آنے والے وقتوں میں پریشانیاں پیدا کرسکتی ہے۔

اس صورت حال میں درجہ ذیل چیزوں میں بہتری لانی کی ضرورت ہے۔

اے آر ٹی کی فراہمی میں بہتری لانا چاہے۔گاوں اور دیہی علاقوں تک ویکسینز کی رسائی ممکن بنانا چاہے۔ عوامی شعور و آگاہی کے لیے میڈیا پر اشہارات چھپوانا چاہے۔ ایک فریم ورک تیار ہونا چاہے۔ امتیازی اور جنسی احتصال کی حوصلہ شکنی ہونی چاہے۔ منشیات استعمال کرنے والوں کے لیے ری ہبیکیٹیشن سنٹرز بنانا چاہے یا پھر افیون کے زریعہ ان کا علاج ممکن بنانا چاہے۔

ایچ آئی وی جو کہ 1983 میں دریافت ہوا ہے تب سے اب تک سائنسی تفہیم اور علاج کے لیے سول سوسائٹی تنظیم کی اہم کوششیں کے باوجود اب تک ایچ آئی وی سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکے۔ یہ وبا نہ صرف صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ گھرانوں اور قوموں کی ترقی اور معاشی نمود کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ ایچ آئی وی سے متاثر علاقوں میں غذا کی قلت سب سے بڑا چلینج ہے۔ ان تمام چلینجز کے باوجود کافی حد تک عالمی صحت اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

پر گذشتہ دو سالوں میں covid19 کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت کی پوری توجہ کرونا کی ویکسین بنانے پر مرکوز رہی ہے اس لیے اس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور پاکستان میں بھی کچھ سیاسی وجوہات کی بنانا پر لاڈکانہ اور تھر پار میں ٹیسٹنگ نہیں کی گئی نہیں معلوم ان پسماندہ علاقوں میں HIV کی ریشو کیا ہے اور صحت اور مدافعاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا کام ہورہا ہے؟

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Jis Par Ehsan Karo Uske Shar Se Bacho

By Syed Mehdi Bukhari