Rolex, Ghari Ko Ye Urooj Kaise Mila?
رولیکس، گھڑی کو یہ عروج کیسے ملا؟
دنیا کے مشہور ترین گھڑیوں کے برانڈ "رولیکس" کا مالک ایک یتیم بچہ تھا، اور اس کے خاندان نے اسے بچپن میں ہی بورڈنگ سکول (ہاسٹل) میں ایڈمیشن کروایا۔ لیکن پھر اس نے جب یہ کمپنی بنائی، تو اس کا منافع کسے دیتا ہے، یہ جان کر آپ بھی چونک جائیں گے۔ رولیکس ایک مہنگا برینڈ ہونے کے باوجود غیر منافع بخش کیسے بنا؟
جدید دور میں ہر کوئی برینڈ اور کوالٹی کو اہمیت دیتا ہے۔ اپر کلاس طبقہ اپنے روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی مخصوص برینڈز سے لیتے ہیں۔ اسی طرح چشمے، کپڑوں، جوتے، پرفیومز کے بعد گھڑیوں کا بھی ایک خاص برینڈ رولیکس ہے۔ جس کی دنیا بھر میں چار دانگ عالم شہرت ہے۔ رولیکس گھڑی کو ہر کوئی پسند کرتا ہے، کیونکہ یہ انتہائی معیاری اور بہت قیمتی ہوتی ہے، لیکن اس کے بنانے والے یا کمپنی کے مالک کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
رولیکس گھڑیوں کے مالک کا نام ہنس ولزڈورف ہے۔ ان کا تعلق جرمنی سے ہے۔ یہ 1981ء میں جرمنی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا۔ 12 سال کی عمر میں ان کے سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیا، تو ان کی تربیت کی ذمہ داری رشتے داروں نے لے لی، جنہوں نے ان کو تعلیم کی غرض سے بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا۔ ہنس ولزڈورف کو بورڈنگ جانے کا فیصلہ پسند تو نہیں آیا، لیکن انھوں نے پھر بھی لگن سے تعلیم حاصل کی۔
اپنے تعلیمی دور میں ہی ان کو انگریزی زبان کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا، اس لئے انھوں نے اس پر عبور حاصل کیا، اور انگریزی زبان میں خط کتابت بھی شروع کی۔ پھر انھوں نے بورڈنگ اسکول کو خیر باد کہہ کر عملی زندگی میں قدم جمانا شروع کر دئیے۔ اس کے لئے انھوں نے ایک گھڑیاں بنانے والی کمپنی میں ملازمت کی۔ یہاں انکی انگریزی زبان نے ان کو فائدہ پہنچایا۔
کچھ ہی عرصہ میں کمپنی کے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کی لسٹ میں ان کا نام سر فہرست تھا۔ یہاں ان کی ملاقات ڈیوس نامی شخص سے ہوئی، جو بعد ازاں دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ ڈیوس ایک بزنس مین تھا۔ ہنس ولزڈورف نے ڈیوس کے ساتھ مل کر رولیکس نام سے گھڑیاں بنانی شروع کیں۔ جو گرزتے وقت کے ساتھ انتہائی مقبول ہوگئیں۔
رولیکس آہستہ آہستہ مہنگا ترین برینڈ بن گیا، لیکن اس کے باوجود مالکان نے اس ادارے کی آمدن سے ملازمین کی تنخواہیں نکالنے کے بعد موجود تمام رقم یتیم خانوں کے لئے مختص کر دی، اور بتایا کہ رولیکس ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ جس کی گھڑیاں مہنگی ہونے کے باوجود منافع مالکان خود نہیں رکھتے، بلکہ یتیم خانوں میں خیرات کر دیتے ہیں۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہنس ولزڈورف خود بھی ایک یتیم تھا، اس لئے انھوں نے گھڑی کی مالیت کو یتیموں کے لئے مختص کر دیا۔
تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے، کہ آپ لوگوں کی مدد کریں، تو آپ کی مدد اللہ تعالیٰ کریں گے، اور جب اللہ تعالیٰ مدد پر آ جائے، تو دنیا کے لوگ اسے انگشت بدنداں نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اور زبان خلق پکار اٹھتی ہے، کہ ایسا عروج، ایسی ترقی، ایسا منافع تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے مال کو خلق خدا پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔