Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Laila Tul Jaiza

Laila Tul Jaiza

لیلۃ الجائزہ

لیلۃ الجائزہ ایک ایسی رات ہے، جو رمضان المبارک کے اختتامی رات ہوتی ہے، اور یہ عید الفطر کی شب ہوتی ہے، جس کے بڑے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ لیلۃ الجائزہ کا معنیٰ انعامات کی رات ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں، جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔

1: ان کے (روزے دار کے) منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

2: ان کے لیے مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔

3: جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں، کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر میری طرف آئیں۔

4: اس میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔

5: رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا "کیا یہ شب مغفرت "شب قدر" ہے۔ رسالت مآبﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ (اللہ تعالی کا) دستور یہ ہے، کہ مزدور کا کام ختم ہوتے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار، بیہقی)

حضور اکرمﷺ ہمیشہ اس رات میں قیام فرماتے، آپ چونکہ اعتکاف فرماتے تھے، اس لئے آپ کا یہ معمول ہوتا تھا کہ آپ یہ رات بھی مسجد میں ہی قیام فرماتے، اور وہیں سے نمازِ عید کی ادائیگی کیلئے سیدھے عید گاہ تشریف لے جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کے اسی معمول مبارک کے پیشِ نظر ہی بعض مالکیہ اعتکاف کی تکمیل کیلئے لیلة الجائزہ معتکف میں ہی گذارنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ لیکن دیگر ائمہ معتکف کیلئے اس رات کا مسجد میں قیام کرنا، اور وہیں سے نمازِ عید کیلئے روانہ ہونا، اور پھر گھر جانا مستحب قرار دیتے ہیں۔ لیلة الجائزہ میں قیام کرنا، اور عبادت الہٰی میں مشغول رہنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، کہ جس نے عیدین کی راتوں میں رضائے الہٰی کیلئے قیام کیا، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ باب فیمن قام لیلتی العیدین)

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے، کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، کہ رمضان کی ہر رات افطار کے وقت لاکھوں لوگوں کو دوزخ سے آزاد کیا جاتا ہے۔ جب جمعہ کا دن آتا ہے، تو اسکی ہر گھڑی میں اس قدر افراد کو آزاد کیا جاتا ہے، اور جب رمضان کی آخری رات آتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس دن میں اتنی تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے آزاد فرماتا ہے، جس قدر پورے مہینے میں آزاد کیے ہوتے ہیں۔ (لطائف المعارف ص 380)

لیلتہ الجائزہ کے یہ وہ فضائل ہیں، جو کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات اللہ تعالی کی صفت رحمت خوب جوش پر ہوتی ہے، اور بے شمار خوش نصیبوں کو مغفرت اور بخشش کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں صالح اعمال سر انجام دینے والوں کو انکے اعمال کی بہترین جزا عطا فرماتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لیلة القدر میں اللہ رب العزت نے بے پایاں اجر و ثواب رکھا ہے۔ صرف اس ایک رات کی عبادت کو تراسی سال چار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ کر قرار دیا گیا ہے، لیکن لیلة الجائزہ کے دامن میں مغفرت کی نوید ہے۔ یقیناً مغفرت کا درجہ اور مقام عبادتوں سے بڑھ کر ہے۔ اسی لئے جب سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے حضور اکرمﷺ سے یہ پوچھا، کہ اگر میں لیلة القدر کو پالوں تو اللہ سے کیا مانگوں۔ چنانچہ مخبر صادق ﷺ نے فرمایا، کہ آپ اللہ تعالی سے معافی طلب کرنا، اور یہ الفاظ ارشاد فرمائے، جنہیں شبِ قدر کا وظیفہ کہا جاتا ہے۔

اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔

ترجمہ: اے ہمارے رب بے شک تو معاف کرنے والا ہے، اور معافی کو پسند فرماتا ہے، پس مجھے بھی معاف فرما دے۔ گویا شب قدر میں جن دعاوُں کی کثرت کی جاتی ہے۔ لیلة الجائزہ میں وہ عطا کر دی جاتی ہیں۔ مغفرت سے بڑا انعام ہم گناہگاروں کیلئے اور کیا ہو سکتا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے، کہ شبِ قدر کی تعیین اٹھا لی گئی ہے، جبکہ لیلة الجائزہ معلوم ہے، لیکن ہماری غفلت کا یہ عالم ہے، کہ ہم لیلة الجائزہ کو شاپنگ اور کھیل تماشوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ چاند رات کے نام پر وہ خرافات وجود میں آچکی ہیں، کہ الامان الحفیظ۔

وہ مزدور کس قدر بد نصیب ہے، جب محنت اور مشقت کے بعد مزدوری وصول کرنے کا وقت آئے، تو وہ اپنے مالک سے منہ موڑ لے۔ یقیناً یہ بڑی محرومی ہے۔ کوشش کرنی چاہئے، کہ ہم یہ رات اللہ کے حضور عبادت میں گذاریں، اور اس سے مغفرت اور بخشش کا انعام پائیں۔

یہ اشکال اور اس کا جواب پیش خدمت ہے۔

سوال: کیا لیلۃ الجائزہ میں کسی مخصوص عبادت کا ذکر احادیث میں موجود ہیں؟

جواب: واضح رہے عیدین کی شب میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت منقول ہے۔

ذیل میں چند فضائل کا ذکر کیا جاتا یے۔

(1) پہلی فضیلت:

حضرت معاذ بن جبلؓ نبی کریمﷺ سے نقل فرماتے ہیں: جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے، اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔

1- لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات۔

2- عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات۔

3- لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات۔

4- لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب۔

"مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْأَرْبَعَ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ: لَيْلَةُ التَّرْوِيَةِ وَلَيْلَةُ عَرَفَةَ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ وَلَيْلَةُ الْفِطْرِ"۔ (أخرجہ ابن عساکر فی تاریخہ: 43 / 93)

اسی طرح "الترغیب و الترھیب" کی روایت میں پانچ راتوں کا ذکر آیا ہے، جن میں سے چار تو وہی ہیں اور پانچویں رات شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ برات ہے۔ (الترغیب و الترھیب: 1656)

(2) دوسری فضیلت:

عیدین کی شب میں کی جانے والی دعاء رد نہیں ہوتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے موقوفاً مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں، جن میں دعا قبول ہوتی ہے، اور اسے رد نہیں کیا جاتا:

1: جمعہ کی شب

2: رجب کی پہلی شب

3: شعبان کی پندرہویں شب

4: اور دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔ (مصنف عبد الرزاق: 7927)

(3) تیسری فضیلت:

عیدین کی شب میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مردہ نہیں ہوگا۔

حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں، کہ نبی کریم ﷺنے اِرشاد فرمایا: جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے، عبادت میں قیام کیا، اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن سب کے دل مُردہ ہو جائیں گے۔ (سنن ابن ماجہ: 1782)

مذکورہ بالا روایات میں عید کی رات کے جو فضائل آئے ہیں، ان میں کسی خاص عبادت کرنے کا ذکر نہیں ملتا، لہذا اس رات میں حسب توفیق نوافل، تلاوت قرآن کریم، ذکر و استغفار اور دعائیں مانگنی چاہیں۔

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi