Huzoor e Akram Ki Behan Syeda Sheema Ki Azmat
حضور اکرمﷺ کی بہن سیدہ شیماؓ کی عظمت
حضور ﷺ کی کوئی بہن نہیں تھی لیکن جب آپ سیدہ حلیمہ سعدؓیہ کے پاس گئے، تو وہاں حضور اکرمﷺ کی ایک رضاعی بہن کا ذکر بھی آتا ہے، جو آپ کو لوریاں دیتی تھیں، اس کا نام سیدہ شیؓما تھا۔
شام کے وقت جب خواتین کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں، تو بہنیں اپنے بھائی اٹھا کر باہر لے جاتیں، اور ہر بہن کا خیال یہ ہوتا کہ میرے بھائی زمانے میں سب سے زیادہ خوب صورت ہے۔
بنوسعد کے محلے میں بچیاں اپنے بھائی اٹھاتیں ایک کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں اور دوسری کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں۔
اتنے میں سیدہ شیمؓا اپنا بھائی سیدنا محمدﷺ اٹھا کے لے آتیں، اور دور سے کہتی میرا بھائی بھی آ گیا ہے، تو سب کے سر جھک جاتے اور سب کہتیں، نہیں نہیں تیرے بھائی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا، ہم تو آپس کی بات کر رہے ہیں۔
سیرت ابن ہشام سیرت میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ سیدہ شیمؓا حضورﷺ کو اپنی گود میں لے کے سمیٹتیں، اور پھر جھومتیں اور پھر وہ لوری دیتیں، اور لوری کے الفاظ بھی لکھ دیئے ہیں، جن کا ترجمہ یہ ہے۔
اے ہمارے رب میرے بھائی محمد (ﷺ) کو سلامت رکھنا آج یہ پالنے میں بچوں کا سردار ہے کل وہ جوانوں کا بھی سردار ہوگا اور پھر جھوم جاتیں۔
پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ حضور ﷺ مکے چلے گئے اور سیدہ شیمؓا بھی جوان ہوئیں، اُن کی شادی بھی کسی قبیلے میں ہوگئی حضور ﷺ نے اعلان نبوت کیا، تیرہ سال کا وقت بھی گزر گیا، اور آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے۔
جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا، تو جس قبیلے میں سیدہ شیمؓا کی شادی ہوئی تھی، اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ہوگیا۔ اللہ رَبُّ العِزَّت نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ تو اس قبیلے کے چند لوگ صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قید کر دیئے گئے۔ تب وہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیہ جمع کرنے لگے، قبیلے کے سردار بھی گھر گھر جا کر رقم جمع کر رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ سیدہ شیمؓا کے گھر پہنچ گئے، جو کہ اپنی عمر کا ایک خاصا حصہ گزار چکی تھیں۔ کہنے لگے کہ اتنا حصہ آپکا بھی آتا ہے۔
سیدہ شیمؓا نے کہا حصہ کس لئے؟
لوگوں نے کہا جو لڑائی ہوئی ہے، اور اس میں ہمارے آدمی گرفتار ہوچکے ہیں، باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر محمد ﷺ کا نام بھی آ گیا، تو سیدہ شیؓما سن کر کہنے لگی اچھا تو کیا، انہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں؟
کہا۔۔ جی
سیدہ شیمؓا نے کہا تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو مجھے ساتھ لے چلو۔
سردار نے کہا آپ کو ساتھ لے چلیں؟
سیدہ شیؓما کہنے لگیں، ہاں تم نہیں جانتے وہ میرا بھائی لگتا ہے۔
قبیلے کے سردار کے ساتھ جب سیدہ شیؓما حضور ﷺ کے نوری خیموں کی طرف جا رہی تھیں، اور صحابہ کرامؓ ننگی تلواروں سے پہرہ دے رہے تھے۔ وہ مدنی دور تھا۔
سیدہ شیمؓا قوم کے سرداروں کے ساتھ جب آگے بڑھنے لگیں، تو صحابہؓ نے تلواريں سونتیں اور پکارا
او دیہاتی عورت رک جا۔ دیکھتی نہیں آگے کوچہ رسول ﷺ ہے۔ آ گے بغیر اذن کے جبریلؑ بھی نہیں جا سکتے تم کون ہو؟
سیدہ شیمؓا نے جواب میں جو الفاظ کہے ان کا اردو ترجمہ یہ ہے۔
میری راہیں چھوڑ دو تم جانتے نہیں میں تمہارے نبی ﷺ کی بہن لگتی ہوں۔
تلواریں جھک گئیں۔ آنکھوں پر پلکوں کی چلمنیں آگئیں راستہ چھوڑ دیا گیا۔ سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کے خیمہ نوری میں داخل ہوگئیں، تو حضور ﷺ نے دیکھا اور پہچان گئے۔ فورا اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا بہن کیسے آنا ہوا؟
کہا آپ ﷺ کے لوگوں نے ہمارے کچھ بندے پکڑ لئے ہیں ان کو چھڑانے آئی ہوں۔
حضور ﷺ نے فرمایا بہن تم نے زحمت گوارا کیوں کی۔ پیغام بھیج دیتیں میں چھوڑ دیتا، لیکن تم آگئیں اچھا ہوا ملاقات ہوگئی۔
پھر حضور ﷺ نے قیدیوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا کچھ گھوڑے اور چند جوڑے سیدہ شیؓما کو تحفے میں دیدیئے، کیونکہ بھائیوں کے دروازے پر جب بہنیں آتی ہیں، تو بھائی خالی ہاتھ بہنوں کو نہیں لوٹایا کرتے۔
حضور ﷺ نے بہت کچھ عطا کیا، اور رخصت کرنے خیمے سے باہر تشریف لے آئے، تو صحابہؓ کی جماعت منتظر تھی۔
فرمایا اے میرے پیارے صحابہ کرام! آپ جانتے ہیں، کہ جب بھی میں قیدی چھوڑا کرتا ہوں، تو میری یہ عادت ہے کہ آپ سے مشاورت کرتا ہوں، لیکن آج ایسا موقع آیا، کہ میں نے آپ سے مشاورت نہیں کی، اور قیدی بھی چھوڑ دیئے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ حضور اکرمﷺ مشاورت کیوں نہیں فرمائی؟ ارشاد ہوا۔ آج میرے دروازے پر میری بہن آئی تھیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے بہنوں کے حقوق ادا کرنے اور انہیں خوش رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔