Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Noor Hussain Afzal
  4. Hazrat Abu Bakr Siddiq (15)

Hazrat Abu Bakr Siddiq (15)

حضرت ابوبکر صدیق (15)

رحمت عالم ﷺ اپنے دولت خانہ سے نکل کر مقام "حزورہ" کے پاس کھڑے ہو گئے، اور بڑی حسرت کے ساتھ کعبہ کو دیکھا، اور فرمایا، کہ اے شہر مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھ کو تجھ سے نہ نکالتی، تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہوتا۔ (سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 162)

ماہ صفر کی 22 تاریخ پیر کی رات حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ غار ثور کی طرف چل دیے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کبھی رسالت مآب ﷺ کے آگے چلتے کبھی پیچھے کبھی دائیں کبھی بائیں۔ حضور اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا، اے ابوبکرؓ تم کبھی آگے، کبھی پیچھے، کبھی دائیں اور کبھی بائیں کیوں چلتے ہو؟ عرض کی یارسول اللہ ﷺ گھاٹ لگانے والے کے حملے سے آپ کو بچانے کیلئے، جب آگے سے حملے کا اندیشہ ہوتا ہے، تو آگے آگے چلتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کوئی دشمن ہماری تلاش میں نہ آ رہا ہو، پیچھے ہو جاتا ہوں، کبھی پہلو میں گھاٹ لگائے ہوئے حملہ آور کا اندیشہ ہوں، تو دائیں بائیں یا آگے چلتا ہوں، تا کہ اگر کوئی تکلیف پہنچے تو مجھے پہنچے۔ اور آپ ﷺ محفوظ رہیں۔

جب پہاڑ کے دامن میں پہنچے، نبی کریم ﷺ کے پائے مبارک زخمی ہو گئے تھے، اور ان سے خون ٹپکنے لگا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب دیکھا، کہ آنحضرت ﷺ کے پائے مبارک زخمی ہو گئے ہیں، تو نبی کریم ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ جب غار کے منہ پر پہنچے، تو عرض کیا یا رسول اللہ آپ یہاں تھوڑی دیر آرام فرمائیے، تاکہ میں پہلے غار میں جا کر اس کی دیکھ بھال اور صفائی کر لوں، غار حشرات الارض سے خالی نہیں ہوا کرتا، یہ کہہ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ غار میں داخل ہو گئے۔

آپ نے دیکھا کہ غار بہت ہی خستہ حال و خراب ہے، عرصہ بعید سے کوئی شخص اس میں داخل نہیں ہوا تھا، اور زمانہ دراز سے اس نے کسی مہمان کا منہ نہیں دیکھا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کپڑے کو جو خود پہنے ہوئے تھے، ٹکڑے ٹکڑے کیا، اپنے دست مبارک سے ایک ایک سوراخ کو تلاش کر کے ان ٹکڑوں سے اچھی طرح بند کیا۔ تفسیر کبیر میں ہے، کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہنے ہوئے کپڑے قیمتی تھی۔ آپ نے تمام سوراخوں کو اچھی طرح بند کیا، لیکن ایک سوراخ کے لیے کوئی کپڑا نہیں بچا تو آپ نے اپنے پاؤں کی ایڑی کو اس جگہ رکھ دی۔ (سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 162)

جب صدیق اکبرؓ نے تمام غار کو اچھی طرح صاف کر لیا، تو سید عالم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا، اندر تشریف لے آئیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ غار میں تشریف لے گئے۔ جب نبی کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے، تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جس سوراخ پر ایڑی رکھی ہوئی تھی، اس سوراخ میں سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا۔

مگر صدیق اکبرؓ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا، کہ رحمت عالم ﷺ کے خواب راحت میں خلل نہ پڑ جائے، مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر نثار ہو گئے۔ جس سے رحمت عالم بیدار ہو گئے، اور اپنے یار غار کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر بےقرار ہو گئے، پوچھا ابوبکرؓ کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً سارا درد جاتا رہا۔ (سیرت مصطفٰی از علامہ عبد المصطفٰی اعظمی صفحہ 163)

Check Also

2017 Ki Ikhtetami Tehreer

By Mojahid Mirza