Chief Justice Yahya Afridi Tareekh Ke Safhat Par
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی تاریخ کے صفحات پر
سینٹ اور قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد منگل کو پارلیمانی کمیٹی نے سینئر ترین تین ججوں میں سے تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کرنے کی منظوریدے دی۔ چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر جسٹس منصور علی شاہ اور دوسرے نمبر پر جسٹس منیب اختر تھے۔ پارلیمانی کمیٹی کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں حکومتی جماعتوں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے آٹھ ارکان نے شرکت کی تھی، جب کہ اپوزیشن سے صرف جمعیت علماء اسلام کے ایک رکن شریک ہوئے تھے۔
دوسری جانب تحریکِ انصاف نے کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، اور اس کے تین ارکان اجلاس میں نہیں آئے۔ یوں کمیٹی کے نو ارکان نے چیف جسٹس کے انتخاب کے عمل میں حصہ لیا۔ اب ہم نو منتخب چیف جسٹس یحیی آفریدی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں
(الف) پیدائش:
نو منتخب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی 23 جنوری 1965 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے، اور ان کے والد عمر آفریدی کا شمار ملک کے اہم بیوروکریٹ میں ہوتا تھا۔
(ب) تعلیم:
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچی سن کالج سے حاصل کی، جس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی جب کہ لاہور میں ہی پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔
(ج) اسکالرشپ پر برطانیہ روانگی:
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر برطانیہ سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے جیسس کالج سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی ہے۔
(د) ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز:
انہوں نے 1990 میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے وکالت شروع کی، جس کے بعد 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر پریکٹس کا آغاز کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے خیبر پختونخوا کے لیے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔
وہ 2010 میں پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے، جب کہ 15 مارچ 2012 کو مستقل جج مقرر کیے گئے۔
(ر) چیف جسٹس آف پشاور ہائی کورٹ:
انہوں نے 30 دسمبر 2016 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا اور پھر 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔
(س) سپریم کورٹ میں خدمات:
سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اکتوبر میں سویلین کے مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو-ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے، نو مئی 2023 کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
بعد ازاں دسمبر 2023 میں سپریم کورٹ کے چھ رُکنی بینچ، جس میں سردار طارق مسعود، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائلز کی اجازت دے دی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ میں کئی ہم مقدمات کی سماعت کی جن میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بنچ کا حصہ رہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ کا حصہ بھی رہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی تین رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
جسٹس یحیٰ آفریدی رواں برس جنوری میں آئین کے آرٹیکل 62 ون-ایف کے تحت اراکینِ پارلیمان کی تاحیات نااہلی ختم کرنے والے بینچ کا بھی حصہ تھے۔ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے 2018 میں سنایا گیا اپنا ہی فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کی تھی جس میں چھ، ایک کے تناسب سے فیصلہ آیا تھا۔ سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے جب کہ صرف جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے نوٹ لکھا تھا۔
اپنے نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا کہ وہ اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی نا اہلی ختم ہوگئی تھی۔
چیف جسٹس یحیی آفریدی تاریخ کے جس نازک موڑ پر ابھی کھڑے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح تاریخ کے صفحات پر امر ہوں گے۔