Berahavi, Awargi Aur Haya Bakhtgi Ke Awamil
بے راہ روی، آوارگی اور حیا باختگی کے عوامل
آج کے معاشرے میں بے راہ روی، آوارگی اور حیا باختگی کے کئی عوامل ہیں۔
1۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں، آج کے معاشرہ کی اکثریت نے ان تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے، انہیں عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ہرگز ہرگز کوشش نہیں کی۔
2۔ اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا، اس کو دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ اور شریف زادیوں کا شعار قرار دیا۔ اسلام نے عورت کو عزت وعظمت دی، وقار اور سربلندی کا تاج اس کے سرپر رکھا، اس کو گھر کی ملکہ بنایا، جس سے گھر کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کی وجہ سے گھر میں آرام اور سکون ملتا ہے، مرد اور اولاد کے لیے گھر میں رہنا باعثِ راحت بنتا ہے، لیکن اسلام کے اس نظریہ کے برعکس مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ عورت کو گھر کی بجائے شمعِ محفل اور سامانِ عیش بناکر بازار میں گھسیٹ لے آئے۔ ایسے لوگوں نے عورت کی عزت وعظمت، وقار وشرافت، پردہ، چادر اور چار دیواری کے وقار کو نہ صرف یہ کہ بٹہ لگایا، بلکہ بچوں کی تربیت اور شوہر کے حقوق کو بھی پامال کرایا، یوں مساوات کا سبز باغ دکھاکر مغربی تہذیب سے مرعوب طبقہ نے اس صنفِ نازک پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔
3۔ مردوزن کے اختلاط سے شریعت نے منع کیا، لیکن مغربی نقالی میں ہمارے معاشرے نے بھی مخلوط تعلیمی نظام کو رواج دیا، جس کے آج بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں اور آئے دن اخبارات میں یہ خبریں چھپتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور کلیاں ان آوارہ گردوں اور حیاباختہ درندوں کی بھینٹ چڑھ کر کچل اور مسل دی جاتی ہیں۔
مغربی تہذیب نے انسانیت کو حیوانیت کے قالب میں ڈھال کر مکمل درندہ صفت انسان بنادیا اور اسی تہذیب کے متوالے آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور آج سماج میں اس کو شریف اور مہذب سمجھا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک مغربیت میں ڈھلا ہوا ہو، وضع قطع، عادات واطوار، رہن سہن، غرض زندگی کے تمام نشیب وفراز میں جو جتنا مغربی تہذیب کا نقال ہوگا، وہ اتنا مہذب شمار ہوگا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج حیاباختگی کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بیوی شوہر کی ضرورت محسوس نہیں کررہی اور شوہر بیوی کی پرواہ نہیں کررہا۔
لڑکے اور لڑکیاں نکاح کو اپنے لیے قید اور بے حیائی کو اپنے لیے آسان اور سستا سمجھ رہے ہیں۔ آئے دن طلاقوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور آج "میرا جسم میری مرضی" کو فروغ دیا جارہا ہے۔ آج خاندان سے سکون واطمینان رخصت ہوچکا ہے، انسانیت جیتے جی مررہی ہے، گھر برباد ہورہے ہیں، نسلیں تباہ ہورہی ہیں، حیا لٹ رہی ہے، جوانیاں داغ دار ہورہی ہیں، بیٹیوں کی عفت نیلام ہورہی ہے۔
آج کے حیا باختہ معاشرے نے رشتوں کے احترام اور تقدس کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے، ہر شخص اپنے لذتِ تن بدن کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، نہ ماں کا تقدس ہے، نہ باپ کا احترام، نہ بیوی کی قدر ہے اور نہ بیٹی کی پہچان۔ غلط، بے حدود اور بے لگام راہیں انسان کو اچھی لگنے لگی ہیں، جس سے سماج بکھرتا جارہا ہے۔
عورت کے چار درجات اور مقام ہیں اور چاروں کو اللہ تعالیٰ نے عزت وعظمت عطاکی ہے:
عورت کی چار حیثیتیں ہیں
1۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔
2۔ عورت اگر بیٹی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت۔
3۔ عورت اگر بہن ہے تو اس کی پرورش، تربیت اور اچھی جگہ رشتہ کردینے پر جنت کی ضمانت۔
4۔ عورت اگر بیوی ہے تو مرد کا لباس اور دنیا کی بہترین متاع اس کو قرار دیا گیا۔
قومِ لوط پر جو عذاب آیا، ان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قوم شرم وحیا سے عاری ہوچکی تھی، بےحیائی کے کام بھری محفلوں اور مجلسوں میں کرتی تھی، ان کی حرکات، سکنات، اشارات وکنایات اور ان کے محلے اور بازار سب کے سب عریانی، فحاشی، آوارگی اور حیاباختگی کا مرقع بن چکے تھے۔ آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کو اس تباہی وبربادی اور ہلاکت کے دَہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
آج کی عورت اگر اپنی زندگی صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اُن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کی تو دور کی بات ہے، اپنے تصور میں بھی نہیں لائے گی اور عورت اپنی تمام تر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوکر اپنے شوہر کے لیے نیک رفیقِ سفر، والدین کے لیے چشمۂ رحمت، بھائی کے لیے گلدستۂ محبت، اولاد کے لیے گہوارۂ اُلفت وچاہت اور سارے معاشرے کے لیے نیک بخت اور نیک سیرت کا مجموعہ بن کر ساری دنیا کو جنت نما بناسکتی ہے۔
بہرحال مرد ہوں یا خواتین، حکمران ہوں یا رعایا، علماء ہوں یا عوام، سب کو اس معاشرہ سے اس بے حیائی وبے شرمی کو ختم کرنے کی اپنی سی استطاعت اور کوشش ضرور کرنی چاہیے۔