Nabeghe, Fateen Aur Aust Darje Ke Adeeb (2)
نابغے، فطین اور اوسط درجے کے ادیب (2)
فطین ادیب(talented writer)، اوسط درجےکے ادیب اور نابغے کے بیچ کی کڑی ہے، لیکن اس کا دونوں سے فاصلہ یکساں نہیں ہے۔ فطین ادیب، اوسط درجے کے ادیب سے خاصی دور ی پر، جب کہ نابغے کے قدرے قریب ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ فاصلہ زمینی نہیں، ذہنی و تخیلی ہے۔
اوسط درجے کے ادیب کے پاس تخلیق کی اگر بنیادی صلاحیت ہے تو فطین ادیب کے پاس یہ صلاحیت اعلیٰ درجے کی ہے۔ بنیادی صلاحیت محض مصرع موزوں کرنے، گٹھے پلاٹ کی کہانی لکھنے تک محدود ہوتی ہے، جب کہ اعلیٰ صلاحیت مصرعے میں یا کہانی ایک ایسا رس، شامل کرتی ہے، جس کا مثل بہترین ادب پاروں میں ملتا ہے، مگر جسے ہوبہو دہرایا جاسکتا ہے، نہ جس کی نقل کی جاسکتی ہے۔
اوسط درجے کے ادیب کی صلاحیت دائرے میں گردش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ تکرار اوسط درجے کے ادیبوں کے یہاں ہوا کرتی ہے۔ اس کا دل ایک پھول کے مضمون کو سورنگوں میں پیش کرنے کے بعد بھی نہیں بھرتا۔ فطین ادیب کی صلاحیت بہ یک وقت دائرے اور خط میں سفر کرتی ہے۔ ایک دائرے کے بعد دوسرا دائرہ۔ اسے تکرار کی خو پسند نہیں ہوا کرتی۔ وہ ایک چیز کے کئی اطراف کا مشاہدہ کرتا ہے، اور ہر طرف کو ایک نئی زبان میں لکھتا ہے۔ وہ چیزوں کے اطراف کے سایوں، حاشیوں، کونوں میں بھی جھانکتا ہے۔ وہ سرسری پن کو فن کی دنیا میں جرم خیال کرتا ہے۔
اوسط درجے کا ادیب اگر مہارت سے چونکاتا ہے توفطین ادیب، ہنر مندی و نشاط وبصیرت تینوں سے۔ اسی سبب سے، فطین ادیب نابغے کی قلم رو کی سرحد کے پاس منڈلاتا ہے، مگر نابغے کی قلم رو میں داخل ہونے کے لیے جس دیوتائی جسارت اور دہشت انگیز تنہائی، ہر نوع کے سہارے سے جرأت آمیز بے نیازی درکار ہوتی ہے، اس سے فطین ادیب محروم ہوتا ہے۔ تاہم فطین ادیب سے زیادہ کوئی اور ادیب نابغے کا قدردان نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ وہ جس شے کی تمنا رکھتا ہے، وہ اپنی کامل صورت میں نابغے کے یہاں اسے نظر آتی ہے۔
فطین ادیب جہان سے سرسری نہیں گزرتا۔ وہ اس جہان اور اس کے اسرار کی سیاحت کی باقاعدہ تڑپ ر کھتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ جس گہرے ولولے سے لکھتا ہے، اور جس حساسیت سے زبان کی ایک ایک آواز اور لفظ کی داخلی دنیا کو محسوس کرتا ہے، وہ اسے سرسری پن کا شکار نہیں ہونے دیتے۔
وہ زبان کا باقاعدہ لمس محسوس کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لامسہ واحد حس ہے، جس میں جھوٹ ہے نہ تصنع اور محسوس کی جانے والی شے کی سچائی کا احترام ہے۔ اس کے لیے زبان کبھی شے نہیں بنتی۔ ایک شے کا تبادلہ دوسری شے سے ہوسکتا ہے، ایک وجود کا دوسرے وجود سے نہیں۔ اس کے لیے زبان وجود ہے، ا س لیے، ایک لفظ کا متبادل کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ہر لفظ کا ایک مقام اور محل ہے۔ فطین ادیب یہ بات پہچانتا ہے۔
وہ زبان کو وجود سمجھنے کے باوجود اسے اپنے اظہار کے لیے کامل خیال نہیں کرتا۔ وہ زبان کے متعدد پیرایوں کو پہچانتا ہے، ان کی ضرورت ومعنویت اور محل و مقام کا عارف ہوتا ہے، اسی لیے وہ کبھی کبھی محسوس کرتا ہے کہ زبان، اس کے تجربات وتخیلات کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ وہ اس بنا پرنئے لسانی تجربے کرتا ہے، نئےا لفاظ ڈھالتا ہے اور نئے پیرائے خلق کرتا ہے۔
وہ اپنا کوئی مخصوص پیرایہ یا اسلوب بنانے کے بعد اسےعبور کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اس کاایک پیرایہ سادہ بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کا سادہ اسلوب، ایک بزرگ دانش مند کی سادہ زبان کی مانند ہوا کرتا ہے۔
اس کے اسلوب کی سادگی، روزمرہ زبان کے فوری ابلاغ والی سادگی نہیں ہوتی۔ اس کی سادگی قدیم تمثیلی حکایات کے مماثل سادگی ہوتی ہے۔ کتنے ہی رموز و اسرار کا بوجھ ایک سادہ حکایت اٹھا لیا کرتی ہے۔ جانی پہچانی زبان کو بھی استعارہ بنایاجاسکتا ہے اورکم، مانوس لفظوں میں بھی گہری دانائی کی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ سادہ فنکشنل زبان اور سادہ تخلیقی زبان میں فرق دیکھنا ہو تو فطین ادیبوں کی آخری عمر کی تحریریں دیکھیے۔ سادہ تخلیقی زبان میں ہمیشہ ایک حیرت زدہ کردینے والا خم ہوا کرتا ہے۔ ویسا ہی خم اور لوچ جو کسی رقاصہ کے بھاؤ میں ہوتا ہے۔ خم اور بھاؤ کے بغیر شعر و افسانہ مردہ الفاظ کا ڈھیر ہیں۔
فطین ادیب کے لیے جہان نہ تو محض وہ ہے، جسےاس کی محدود انا نے تصور کیا ہے، نہ محض وہ ہے جو سامنے ہے۔ وہ ایک سے زیادہ جہانوں کا تصور رکھتا ہے، اور انھیں اعلیٰ فن کے نمونوں کے ذریعے پہچانتا ہے، اور خود اپنی تحریروں سے ایک نئے جہان کو خلق کرنے کی آرزو بھی کرتا ہے۔
وہ لکھنے کو ایک عظیم ذمہ داری سمجھتا ہے، اور کسی نوعیت کے سرسری پن کو اس ذمہ داری سے مجرمانہ کوتاہی خیال کرتا ہے۔ وہ یہ بھی خیال کرتا ہے کہ لکھنے کی ذمہ داری اسے اسی فطرت کی طرف سے تفویض کی گئی ہے، جس نے اسے دنیا میں بھیجا ہے۔ وہ دنیا میں اپنے ہونے کا تصور جب بھی کرتا ہے، ایک تخلیق کار کے طور پر کرتا ہے۔ چناں چہ وہ تخلیق سمیت سب صلاحیتیں، وسائل، سماجی زندگی تک کو اپنے تخلیقی عمل میں جھونک دینے پر تیار رہتا ہے۔
وہ اپنی جملہ شناختوں میں اپنے تخلیق کار ہونے کی شناخت کو اوّلیت دیتا ہے۔ اسی سبب سے اس کے یہاں نرگسیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ کچھ فطین ادیبوں کے یہاں یہ نرگسیت، حد اعتدال سے تجاوز کرجاتی ہے۔ وہ کبھی شاعرانہ تعلی، کبھی دوسرے پیرائے میں اپناہی قصیدہ لکھتے ہیں۔ کئی بار، ان کے تحریر وگفتگو کا موضوع وہ خود ہی ہوتے ہیں۔
فطین ادیب کی نرگسیت، اپنا جواز بھی گھڑ لیتی ہے۔ اسے یہ کہنے میں باک نہیں ہوتا کہ "ہر خالق، اپنی تخلیق کے ساتھ ساتھ خود اپنی ستائش کا حق رکھتا ہے"۔ فطین ادیب، اپنے لیے ایک نئی اخلاقیات بھی وضع کرلیا کرتا ہے۔ وہ کئی سماجی بندشوں کی شکست کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہے۔ وہ اپنے ادب میں بھی ایک متبادل دنیا کا تصور دیتا ہے، یا معمول کے اخلاقی رویوں کو معرض استفسار میں لاتا ہے۔
وہ دنیا سے جو کچھ اخذ کرتا ہے اور جو کچھ دنیا کو لوٹاتاہے، اس میں بھی تخلیقیت کا عنصرشامل رکھتا ہے۔ تخلیقیت سے اس کی مراد ایک نئی چیز کی ایجاد ہے۔ یہ چیز ایک نیا خیال، نیا واقعہ، نیا منظر، نئی کیفیت، نیامعنی، نیا، انوکھاپیرایہ بیان ہوسکتا ہے۔
وہ اپنی تحریروں کو آئنہ نہیں، چراغ بنانے کی بساط بھر کوشش کرتا ہے۔ وہ دنیا ہی کی روشنی و تاریکی، واپس اسی دنیاکو نہیں لوٹاتا، اس میں کچھ اپنی روح کا نور اور اپنے وجود کی آگہی، جس میں کچھ عجب طرح کی ظلمت، دہشت، بھیانک پن، رنج بے سبب، نشاط نو وغیرہ ہوسکتا ہے، شامل کرتا ہے۔ وہ دنیا میں آدمی کے ہونے کا مقدمہ، اپنی تحریر کے ذریعے ہر نوع کی مقتدرہ کے آگے پیش کرتا ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے، وہ کئی بار خوف، مصلحت کا شکار ہوجایا کرتا ہے، اور پھر خو د کو کوستا ہے۔ خود تنقیدی وخود ملامتی، فطین ادیبوں کے یہاں اکثر ہوا کرتی ہے۔
فطین ادیب کی تحریروں میں دنیا ہو، انسانی ہستی ہو یا ادبی روایت، اس کی ہو بہو نقل کے بجائے، اس میں انحرافی، ایجادی عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔
وہ سامنے کی دنیا کے علاوہ، مخفی ومضمر، نامعلوم وعدم کو بھی لکھتا ہے۔ وہ اگر حقیقت نگاری بھی کرے گا تو وہ خالص نہیں ہوگی، اس میں سررئیلی، طلسمی یا کچھ دیگر عناصر ہوں گے۔ یہ عناصر ایک تخلیق کار کی جانب سے دنیا کو نذر کی گئی متاعِ خاص ہیں۔
فطین ادیب حیرت وطرفگی کے بغیر ادب کا تصور نہیں کرسکتا۔ وہ جانتا ہے کہ روزمرہ کی حقیقتوں میں ایک مسلسل تکرا ر کا عمل ہے، وہی محبت، رقابت، نفرت، جنگ، فتح وشکست، بیماری، غربت، ذلت ورسوائی، مرگ انبوہ ومرگ تنہائی کے واقعات دہرائے جارہے ہیں، ادب وفن اگر اس تکرار میں حیرت وطرفگی پیدا نہ کریں تو زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ اوسط درجے کے ادیب، روزمرہ حقیقتو ں کی تکرار کو دنیا ہی کی طرف لوٹا دیا کرتے ہیں، یا ان سے یکسر گریز کرکے ایک تفریحی نوعیت کی فنتاسی میں لے جاتے ہیں۔ فطین ادیب، دنیا کو ضرور لکھتا ہے، مگر اس احساس وشعور کے ساتھ نہیں جو دنیا کے سلسلے میں عام طور پر موجود ہوتا ہے، بلکہ ایک انفرادی آگہی اور ایک گہری تشویش کے ساتھ لکھتا ہے۔ وہ یہ بنیادی حقیقت جانتا ہے کہ اگر دنیا کا نظم اور اس کے سلسلے میں عام شعور بجا ہو تو اسے لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ادب، دنیا کو اس کے رخنوں، کجیوں، مصائب سے، ایک گہری انسانی تشویش سے آگا ہ نہ کرسکے تو کس کام کا؟ بلاشبہ دنیا میں کچھ چیزیں جشن منانے والی بھی ہیں، جیسے محبت، انسانی جسموں کی اشتہا انگیز تپش، روشنی، موسم، مناظر، پرندے، ان کے، ہواؤں، آبشاروں کے گیت، بچوں اور جوان عورتوں کے تبسم اور سمندر وآفاق کی پہنائیاں، انھیں فطین ادیب کا قلم شہ پاروں میں بدل دیا کرتا ہے۔
ایک قسم کی مابعد الطبیعیات، فطین ادیب کے یہاں ظاہر ہو کر رہتی ہے، خواہ وہ کتنا ہی آزاد خیال، لبرل، ترقی پسند ہو۔ تاہم وہ آرٹ کی اپنی مابعدالطبیعیات اور مذہبی مابعد الطبیعیات میں فرق روا رکھتا ہے۔ آرٹ کی مابعد الطبیعیات، دراصل، آرٹ کو زندگی کی بنیاد ی شرط، زندگی بسر کرنے کا بنیادی اصول بنا کر پیش کرنے کا دوسرا نام ہے۔ یعنی آدمی ایک فن کا ر کے طور پر، فن کی کتب کو بنیادی کتب تصور کرکے پوری زندگی بسر کرسکتا ہے۔ ایک نوع کا یوٹوپیا۔ ہر یوٹوپیا، کسی نہ کسی مابعد الطبیعیات میں جڑیں رکھتا ہے۔
فطین ادیب یہ بھی خیال کرتا ہے کہ جس طرح پیغمبری ایک منصب ہے، تخلیق کار ہونا بھی ایک منصب ہے۔ وہ اپنے متعلق، یعنی ایک تخلیق کار ہونے کے متعلق مثالی تصورات رکھتا ہے، اور ان تصورات کو اپنے تحریروں میں ظاہر بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کی تحریروں کا ایک اہم موضوع خود ا س کا لکھنا بھی ہوا کرتا ہے۔ وہ نظموں میں خود نظم کو، فکشن میں خود فکشن کو موضوع بنانے میں حرج نہیں دیکھتا۔
وہ چیزوں کو گہری نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر شے کی سطح کے نیچے کے خروش اور اس سے نیچے خاموش گہرائی کا ادراک بھی کرتا ہے۔ وہ یہ سب دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
وہ گہری نظر، پید اکرنے کے لیے، محض خود پر بھروسہ نہیں کرتا، وہ دوسروں سے اخذ و اکتساب کرتا ہے۔ اور یہ دوسرے، محض آس پاس کے مصنفین نہیں، ادبیات کی تاریخ کے بڑے مصنفین بھی ہواکرتے ہیں۔ وہ تخیلی طور پربڑے مصنفین سے صحبت رکھتا ہے۔
حقیقت میں وہ ادب میں کمال کے حصول کی آزرو کرتا ہے۔ اوسط درجے کا ادیب اگراپنے زمانے میں مقبولیت کا جنون رکھتا ہے تو فطین ادیب اپنی اختیارکردہ صنف میں حدِ کمال تک رسائی کے لیے مضطرب رہتا ہے۔ وہ عظیم ادیبوں کے کارنامے اس خیال سے پڑھتا ہے کہ وہ سمجھ سکے کہ ادب میں عظمت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔ عظمت وکمال، اس کا سب سے بڑا خواب ہوتے ہیں۔ وہ اپنے جوہر تخلیق کو اس خواب کی تکمیل میں صرف کرنے کی تڑپ رکھتا ہے۔
ادبی روایت کے بہترین عناصر، فطین ادیبوں کی وساطت سے نہ صرف منتخب کیے جاتے رہتے ہیں، بلکہ وہ اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔ خود فطین ادیب، ان عناصر میں کچھ نہ کچھ ضرو ر اضافہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی فطین ادیب اضافہ نہ کرسکے تو اپنی زندگی کو رائیگاں سمجھتا ہے۔
وہ عظمت کا تصور دوسروں سے، اور زیادہ تر اپنے پیش رووں سے، اخذ کرتا ہے، و ہ انھی کی مانند عظیم بننا چاہتا ہے۔ انھی کی مانند، ادب کی تاریخ میں اپنے نام و کام کا ذکر، روایتی سنہر ی حروف میں لکھا دیکھنے کی خوا ہش کرتا ہے۔ وہ ادبیات کی تاریخ کے عظیم الشان دربار میں باقاعدہ منصب و کلاہ چاہتا ہے۔ وہ اپنی موت سے اتنا خوف زدہ نہیں ہوتا، جس قدر ادب کی تاریخ میں منصب جلیلہ نہ ملنے سے سہما ہوا ہوتا ہے۔ وہ ادب کی روایت میں اپنی موت کو شکست دینے کے لیے اپنی جملہ بہترین صلاحیتوں کو صرف کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے زمانے میں منصب وکلاہ کے لیے سفارش، دھونس، سیاست، سازش، تعلقات چل سکتے ہیں، ادب کی تاریخ میں نہیں۔ وہ اس کڑی سچائی کو تسلیم کرکے، بہترین تخلیق کے لیے دن رات ایک کردیاکرتا ہے۔
یہیں، وہ ایک دبدھے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ جن ادیبوں سے عظمت کا تصور اخذ کرتا ہے، جن کی تحسین میں وہ اشعار تک لکھتا ہے، انھی کولاشعوری طور پر اپنے راہ میں رکاوٹ بھی سمجھنے لگتا ہے۔ ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ایک فطین ادیب کے دل میں عظمت کی طلب جس قدر ہوتی ہے، اسی قدر اپنے عہد اور تاریخ کے بڑے ادیبوں سے رقابت کا جذبہ بھی اسی قدر ہوتا ہے۔ وہ جس اعزاز کا طالب ہوتا ہے، اسے دوسروں کے یہاں دیکھنا، اس کی خود پسند ی و نرگسیت کے لیےآسان نہیں ہوتا۔
کچھ فطین ادیب اس جذبے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ نہیں۔
عجیب اور انوکھی بات یہ ہے کہ یہ رقابت رائیگاں نہیں جاتی۔ فطین ادیب، اسے بھی اپنی قوت بناتا ہے۔ جس طرح اس کی نرگسیت اسے حصولِ کمال کی طرف لے جاتی ہے، اسی طرح صاحبانِ کمال سے اس کی رقابت، اسے عظیم بننے کی تحریک دیتی ہے۔ اس کی ذہانت اور تنقیدی بصیرت اسے بچالیتی ہے۔ وہ یہ راز پالیتا ہے کہ آویزش، تصادم، معرکہ بھی نئے خیالات اور نئے فن پاروں کی تخلیق کا محرک ہوسکتے ہیں، اگر انھیں شخصی دائرے سے نکال کر استعاراتی منطقے میں پہنچایا جاسکے۔
آدمی جسے اپنا مخالف و حریف سمجھتا ہے، وہ اس کا محسن ہوسکتا ہے!