Nabeghe, Fateen Aur Aust Darje Ke Adeeb (1)
نابغے، فطین اور اوسط درجے کے ادیب (1)
ادب کی تاریخ میں تین طرح کے ادیب ملتے ہیں: نابغے، فطین اور اوسط درجے کے ادیب۔ سب سے پہلے اوسط درجے کا ادیب (mediocre writer)۔ ہر نوع کی صلاحیت کے درجے ہیں: بنیادی، اوسط، اعلیٰ، کمال۔ اصولی طور پر ہر صلاحیت جیسے جیسے کام میں لائی جاتی ہے، اس میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ مشق، صلاحیت کو بڑھاتی ہے، لیکن کہاں تک اور کس رخ میں، اس کا جواب آسان نہیں۔ کبھی صلاحیت محض ایک دائرے میں گردش کرتی رہتی ہے، اور کبھی سیدھے خط میں۔ یعنی کبھی آدمی ایک ہی نوع کا کام پیرائے بدل بدل کرکرتا رہتا ہے اور کبھی اس کا کام بھی ہر بار نیا ہوتا ہے اور پیرایہ بھی مختلف۔
کوئی صلاحیت، خلا میں کام نہیں کرتی، وہ آدمی کے مزاج و میلان، ترجیحات و اقدار سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ کئی بار اعلیٰ درجے کی صلاحیت محض مزاج کی سیمابیت، زود حسیت، بے کلی مسلسل کے سبب، بنیادی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔ متلون و منتشر مزاج، صلاحیت کو سرے سے برباد کردیتے ہیں اور استقامت پسند مزاج معمولی صلاحیت سے بھی ایک آدھ کارنامہ سرا نجام دلوانے کا باعث بن جاتے ہیں۔
اوسط درجے کا ادیب، شعر و افسانہ لکھنے کی بنیادی صلاحیت بلاشبہ رکھتا ہے، وہ مصرع موزوں کرسکتا ہے، ایک کہانی کا پلاٹ ترتیب دے سکتا ہے، درست زبان بھی لکھ سکتا ہے مگر حیرت جگانے سے قاصر رہتا ہے۔ حیرت، کسی غیر متوقع دنیا کا دفعتاً انکشاف ہے۔ سخت محنت و ریاضت سے متاثر کن چیز لکھی جاسکتی ہے، حیرت انگیز نہیں۔
شعر و افسانہ، حیرت کے بغیر مردہ الفاظ کا ڈھیر ہے۔ درست و فصیح اور صحیح بحر میں لکھے الفاظ بھی مردہ ہوسکتے ہیں۔ رواں، موزوں مصرع بھی رس، سے خالی اور گٹھے ہوئے پلاٹ کا افسانہ، افسوں، سے محروم ہوسکتا ہے۔
اوسط درجے کا ادیب، میر کے لفظوں میں جہان سے سرسری گزرتا ہے۔ ہر طرح کے جہان سے۔ وہ محض سطح کو دیکھتا ہے، سطح کے نیچے خروش کا تصور رکھتا ہے نہ مشاہدہ۔ سطح کے اطراف بھی نہیں دیکھتا۔ وہ اپنی توجہ، نظر، دھیان اور کسی جذبے کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔
جہان سے سرسری گزرنے والے کے لیے جہان چند ٹکڑوں کا ایک کولاژ ہوتا ہے۔ یہ چند ٹکڑے بھی وہی ہوتے ہیں، جنھیں شخصی انا نے منتخب کیا ہوتا ہے۔ اس کی دنیا کی آخری حد وہی ہے جو اس کے سہل پسند ذہن اور شخصی انا اور اس کے مقاصد کی حد ہے۔
اسے چیزیں سادہ محسوس ہوتی ہیں، اور یہی پسند بھی ہوتی ہیں۔ سادہ زبان میں کہی گئی باتیں، شاعری، کہانیاں، غیر افسانوی تحریریں۔ وہ یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتا کہ سادہ زبان، زبان کے وسیع و متنوع اسالیب میں سے محض ایک اسلوب ہے، جسے عملی مقصد کے لیے برتا جاتا ہے۔ روزمرہ کا عملی ابلاغ اور فن کا ابلاغ، دو جدا چیزیں ہیں۔ ایک ہی زبان میں ابلاغ کے کئی اسالیب ہوا کرتے ہیں۔ اوسط درجے کا ادیب نئے اسالیب کے انوکھے تجربے کرنے سے خوف زدہ ہوتا ہے۔
اوسط درجے کا ادیب سادہ تحریر کا یہ اصول ہر وقت پیش نظر رکھتا ہے کہ وہ کسی تامل، وقفے، رخنے کے بغیر فوراً سمجھ میں آجائے۔ وہ ذہن پر بار بننے والی، اس کی ذہنی عادات کو چیلنج کرنے والی کسی تحریر کو پڑھنا پسند کرتا ہے، نہ لکھنا۔ وہ انسانی سائیکی، سماج، تاریخ، زمانے، روایت کو بھی بالکل سادہ اصولوں سے سمجھتا ہے۔ کبھی یہ سادہ اصول مذہب ہوتا ہے، کبھی معیشت، کبھی سیاست، کبھی اخلاقی زوال۔۔ اور ان سب کو بھی وہ کسی تنقیح کے بغیر قبول کرتا ہے۔ تنقیدی فکر کو بارہ پتھر دور رکھتا ہے۔
ایک اصول کی مدد سے دنیا کو سمجھنا آسان ہوا کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ محض ایک اصول سے دنیا کو سمجھنے سے، دنیا اتنی اہی سمجھ آتی ہے، جتنی اس اصول کی حد ہوتی ہے۔
وہ چیزوں، کتابوں، ادیبوں، زمانے کے بارے میں رائے قائم کرنے (اور بدلنے) میں عجلت سے کام لیتا ہے، اور جذباتی ہو جایا کرتا ہے۔ اس سبب سے اس کی زبان میں ایک روانی اور بے ساختگی پیدا ہوتی ہے۔ اسے اس کے تخلیقی وفور پر محمول کرنے کی غلطی اکثر لوگ کرتے ہیں۔ محبت، نفرت، حسد، تعصب، دشمنی، گالی، یہ سب اپنا اظہار بے ساختہ اور نئے استعاروں میں کرتے ہیں۔ یہ عام انسانی اصول ہے، اس سے انسان کی کوئی خصوصی صلاحیت ظاہر نہیں ہوتی۔
وہ یہ خیال کرتا ہے کہ ہر طرح کے جذبات کا بےمحابہ اظہار ہی، جذبات کا سچا اظہار ہے، اور جذبات کا سچا اظہار، شخصیت کا سچا اظہار ہے۔ یوں وہ خود کو ایک سچے انسان کے طور پر پیش کرتا ہے اور اپنی کہانیوں میں بھی ایسے ہی کرداروں کو پیش کرتا ہے، اور اپنی شاعری میں بھی جذبات کا بے محابہ اظہار کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ انسان کی ذات کی سچائی کا بھی بالکل سادہ سا تصور رکھتا ہے۔ ہر وقت ایک یا دوسرے جذبے کی شدت میں مبتلا رہنے والا شخص، گہرائی، خاموشی اور سکوت سے محروم ہوتا ہے۔ آدمی اپنے وجود کی سچائی سے تنہائی اور سکوت ہی میں آگاہ ہوتا ہے۔ وہ جذبے کو گہرا ہونے سے پہلے ہی اگل دیتا ہے۔
یہ جذبات پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں، کیسے انسانی روح و تخیل میں گردش پیما ہوتے ہیں، آدمی کی ذات میں مضمر زمانوں میں کہاں کہاں پہنچتے ہیں، اور ان کے بے محابہ اظہار کے اثرات کیا ہوتے ہیں، اسے ان چیزوں کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہوتا۔
وہ سادہ، رائج، یہاں تک کہ سلینگ زبان میں، عام فہم، جانی پہچانی باتیں لکھتا، سنتا، پڑھتا اور دہراتا ہے۔ اسی بنا پر اسے مقبولیت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ وہ زمانے کو وہی کچھ لوٹاتا ہے، جو زمانہ اسے دیتا ہے۔ وہ زمانے کاِ آئنہ بننا پسند کرتا ہے، چراغ نہیں۔ اس کے لیے زمانے کی حد بھی بس وہیں تک ہے، جہاں تک اس کی انا کی حد ہے۔
چوں کہ جانی پہچانی باتیں دہرانے میں آسانی ہے، اس لیے وہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ جانی پہچانی باتوں کا ایک غیر معمولی سیاسی کردار ہوتا ہے، یہ باتیں سماج میں کچھ خیالات کی اجارہ داری کے کام آتی ہیں۔ اس کی باتیں، تحریریں، سماج میں سٹیس کو، کو قائم رکھنے کے کام آتی ہیں۔
اوسط درجے کے ادیب سماج کو ایک خاص ڈھب پر برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ہر قومی، مذہبی، ثقافتی تہوار پر مقبولِ عام اسلوب میں نظم، غزل، کہانی لکھنے میں عار نہیں ہوتا۔ ان کے لیے لکھنا، کسی نئی دنیا کو دریافت کرنے کے بجائے، ایک۔ مہارت ہے۔
وہ جانی پہچانی، مقبول، سہل و سادہ باتوں کے برعکس باتیں کرنے والوں کو اپنا سب سے بڑ احریف خیال کرتا ہے۔ وہ باقاعدہ ان کے خلاف مورچہ بند ہوتا ہے۔ اوسط دجے کے ادیبوں میں اتفاق جلد ہوجایا کرتا ہے۔ ایک زمانے کے فطین ادیب شاید ہی اکٹھے ہوتے ہوں!
اوسط درجے کے ادیبوں کو فکشن میں سادہ، سیدھے خط میں رواں، دل چسپ واقعات کی حامل کہانی پسند ہوتی ہے۔ وہ اسی طرح کی کہانیاں لکھتے اور اسی وضع کی پڑھتے ہیں۔ وہ شعر وکہانی میں بھی سٹیس کو، کے حامی ہوتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہوتے ہیں کہ سننے کے لائق بس وہی بات ہے جو دل سے نکلے اور کسی توقف کے بغیر سیدھی دل میں ترازو ہوجائے، اور سننے والے کو آہ، واہ، سبحان اللہ، واللہ کہنے پر مجبور کردے۔ ذہن وتخیل و تاریخ کے ان دیکھے، تاریک و پراسرار منطقے ان کے لیے محض ظن وگمان ہیں اور یکسر غیر ضروری۔
ہر زمانے میں اوسط درجے کے ادیب تعداد میں زیادہ ہوا کرتے ہیں، اور انھی کے سبب ادب میں پالولر فکشن وشاعری اور سیاست میں پالولزم ممکن ہوتا ہے۔