Madri Zubano Ke Din Ki Munasibat Se
مادری زبانوں کے دن کی مناسبت سے
آج مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس کی مناسبت سے میں کثیر لسانیت اور لسانی تنوع کے اس فرق پر چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، جنھیں ہمارے یہاں عام طورپر پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔
کثیر لسانیت (Multilingualism)سے مراد تو ایک سے زیادہ زبانوں کا موجود ہونا، ان سے واقف ہونا یا ان میں ابلاغ کی استعداد رکھنا ہے۔ اگر آپ دو زبانیں جانتے ہیں تو ذولسانی ہیں۔ دو سے زیادہ جانتے ہیں تو کثیر لسانی ہیں۔
جب کہ لسانی تنوع پسندی (Plurilingualism) چیزے دیگر ہے۔ اگرچہ اس میں بھی ایک سے زیادہ زبانوں کا جاننا شامل ہے، لیکن یہ جاننا محض مختلف زبانوں کو وقتی عملی مقاصد کے لیے، ذریعہ اظہار بنانے تک محدود نہیں۔ اس میں دوسری زبانوں کی ثقافت، ان کی ادبی روایات، ان کے تصور دنیا کو اپنے شعور وادراک کا حصہ بنانا شامل ہے۔ اپنے ذہنی، لسانی، ثقافتی نقشے کی توسیع کرنا ہے۔
لسانی تنوع پسندی زبانوں کے چھوٹے بڑے ہونے میں یقین رکھتی ہے، نہ ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان کے ادب سے اعلیٰ وافضل سمجھتی ہے۔ بلاشبہ زبانوں میں اور ان کے ادبیات میں فرق ہوتا ہے، لیکن یہ فرق انھیں شناخت دیتا ہے اور ان کے تاریخی ارتقا کے مراحل کو بیان کرتا ہے، انھیں ایک دوسرے کا حریف نہیں بناتا۔ بلاشبہ پاکستان کی سب زبانوں کا ادب، اپنی الگ الگ تاریخ رکھتا ہے۔ کچھ زبانوں میں لوک ادب، تحریری ادب کے مقابلے میں زیادہ ہے، کچھ میں اس کے برعکس ہے۔ لسانی تنوع پسندی ہمیں زبانوں کی اس ارتقائی صورت سے آشنا کرتی ہے۔
نیز وہ صرف ہمیں دوسری زبانیں بولنے والوں کے قریب ہی نہیں لاتی، خود ہمارے لیے تخلیقی مہمیز کا باعث بھی ہوتی ہے۔ ایک نئی زبان اور اس کے ادبیات میں داخل ہونا، ایک نئی دنیا دریافت کرنے اور اس کے نتیجے میں نئی نئی حیرتیں سمیٹنے کے مترادف ہے۔
لسانی تنوع پسندی، ایک تھیوری کے طور پر نئی ہے مگر یہ ہمیں خود اپنی ادبی تاریخ میں کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ ہماری زبانوں کے بیشتر بڑے ادیب ایک سے زیادہ زبانیں ہی نہیں جانتے تھے، ان سے استفادہ بھی کرتے تھے اور ان میں لکھا بھی کرتے تھے، یعنی لسانی تنوع پسندی پر عامل تھے۔ دوسری زبانوں سے ان کے استفادے کا تصور بھی وسیع تھا۔ یہ تصور بہ یک وقت سماجی، عوامی روابط اور اپنے تخیل کی وسعت پر محیط تھا۔ ان سب ادیبوں میں ایک اور بات بھی مشترک تھی۔ وہ سیر وسفر کیا کرتے تھے۔ نئی جگہوں، نئے لوگوں، نئی ثقافتوں کا مشاہدہ کیا کرتے تھے اور عام لوگوں سے انھی کی زبان میں بات چیت کیا کرتے تھے۔ تب لنگوافرینکا کا تصور موجود نہیں تھا۔
وہ وسیع، حقیقی دنیا سے گہرے، حقیقی روابط کے قائل تھے۔ وہ وہ زبانوں کی اس درجہ بندی کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے، جسے پہلے آریاؤں نے اور بعد میں استعماری حکمرانوں نے رواج دیا اور مختلف زبانیں بولنے والوں میں وہ تفریق قائم کی جو ذات پات کی تفریق سے کسی طرح کم نہیں۔ ان کے یہاں مروت، رواداری، وسیع النظری، انسان دوستی، کشادگی کے جو تصورات موجود ہیں، وہ اسی سیر وسفر اور ایک سے زیادہ زبانیں جاننے کی براہ راست دین ہیں۔
بابا فرید(1173ء—1265ء)نے سندھی، سرائیکی اور پنجابی میں لکھا۔ ان کے بعد امیر خسرو (1273ء—1325ء) نے فارسی اور ہندوسی میں شاعری لکھی۔ تب ہندوی کا لفظ ہندوستان کی زبانوں کے لیے تھا۔ اس میں آج کی اردو اور پنجابی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب "نہ سپہر " کے تیسرے سپہر یعنی باب میں لکھا ہے۔
سندی و لاہوری و کشمیر وگر
(سندھی) (پنجابی)(کشمیری)(مراٹھی)
دھور سمندری تلنگی وگجر
(کنٹر)، (ملیالم)، (تیلگو) (گجراتی)
معبری وگوری وبنگال و اودھ
(تمل)(آسامی)(بنگالی) (اودھی)
دہلی وپیرامنش اندر ہمہ اند
ایں ہمہ ہندویست زایام کہن
عامہ بکار است بہ ہرگونہ سخن
(یہ پرانے زمانے سے ہندوستان کی زبانیں ہیں۔ عام لوگ انھیں ہر طرح کے کلام میں استعمال کرتے ہیں )
یہ درست ہے کہ یہاں سب زبانوں کا ذکر نہیں آسکا، مگر طوطی ہند امیر خسرو، ہندوستان کے لسانی تنوع کو باور کرانے میں ضرور کامیاب ہیں۔ وہ ان میں سے کسی زبان کو دوسری زبان پر فائق نہیں ٹھہراتے۔ وہ سب زبانوں کا احترام کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں، زبان کا احترام اس کے صرف بولنے والوں ہی کا نہیں، ان کے ثقافتی تصورات، اقدار، علوم کا احترام بھی ہے۔ آج بہت سے لوگوں کے لیے لسانی تنوع پریشانی کا باعث ہے مگر امیر خسرو کے لیے جشن کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف فارسی اور کئی قسم کی ہندوی میں کلام لکھا بلکہ اپنے کلام میں دوسری زبانوں کے الفاظ کی آمیزش بھی کی۔ مثلاً روح سے متعلق پہیلی دیکھیے:
لکے لکے اک تریا آئی
جو کچھ اس نے کری کمائی
گر تو چاہے اپنی گت
پیا کو ہرگز چھوڑے مت
سچل سرمست (1739ء—1829ء) نے فارسی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، راجھستانی اور اردو میں لکھا۔ انھیں بجاطور پر شاعر ہفت زباں کہا گیا ہے۔ یعنی وہ لسانی تنوع پسندی کے قائل اور عامل تھے۔
لسانی اصلاح کی تحریکوں نے، اردو کے لیے دوسری زبانوں سے ربط ضبط کے کڑے، برہمنی اصول وضع اور نافذ کیے۔ ان اصلاح پسندوں (حاتم اور ناسخ خاص طور پر)کے سبب اردو زبان اپنے عوامی مزاج سے کنارہ کش ہوکر شہری اشرافیائی کردار کی حامل ہوئی۔ آپ عربی، فارسی الفاظ کی تراکیب بناسکتے ہیں، فارسی ہندی کی نہیں۔ کیا اس لیے کہ فارسی وعربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کی زبانیں ہیں اور ہندی دیہی علاقوں کے ان پڑھ لوگوں کی زبان ہے؟
آج، جب شہری اشرافیہ کی زبان فارسی کے بجائے انگریزی ہے، اردو میں انگریز ی الفاظ کی بے جا آمیزش روا ہی نہیں، قابل فخر بھی تصور کی جانے لگی ہے مگر پنجابی، سندھی، پشتو وغیرہ کے الفاظ کو بارہ پتھر دور رکھا جاتا ہے۔ یہ اشرافی مزاج، زبان میں ذات پات کا نظام نہیں تو اور کیا ہے؟ زبان کی معیار بندی اپنی جگہ مگر معیار بندی کے دوران ہی میں زبان کے مزاج میں کچھ زبانوں کے لیے مدح اور کچھ کے لیے ذم کے عناصر داخل کرنا کہاں روا ہے!
مذہب اسلام کی رو سے عربی کو عجمی پر اور کسی سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ والے پر برتری نہیں۔ لسانیات نے اپنی سائنسی تحقیقات سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کسی زبان کو دوسری زبان پر برتری نہیں۔ سب زبانیں برابر ہیں، اس لیے کہ سب اپنے متعلقہ انسانی گروہوں کی ابلاغی ضرورتوں کی کفیل ہوتی ہیں۔
یہ سیاست ہے۔ جو زبانوں کو چھوٹا بڑا، اعلی ٰ اور حقیر گردانتی ہے۔ اردو میں لسانی اصلاحی تحریکوں کے بعد نو آبادیاتی عہد میں قوم پرستی کی بنیاد پر اخراج (Exclusion)کی سیاست شروع ہوئی۔ اس سب کوخارج کرنے کی نظریاتی اور ادارہ جاتی کوششیں کی گئیں جوقوم کے مذہبی تصور سے کسی بھی طرح غیر ہم آہنگ تھا۔ اخراج کی اس سیاست کے منفی اثرات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔