Lahore Ki Smog, Lahore Ki Nayi Pehchan
لاہور کی سموگ، لاہور کی نئی شناخت
لاہور کی شناخت بدل رہی ہے۔ پہلے یہ شہرِ بے مثال اپنے باغات، عمارات، دروازوں، قلعے، کتب خانوں، مدرسوں، خانقاہوں، مسجدوں، مندروں، اعلیٰ تعلیمی اداروں، اشاعت گھروں، ادیبوں، فنکاروں کی نسبت سے پہچانا جاتا تھا۔
اب اس کی پہچان کا ایک نیا زاویہ پیدا ہوا ہے: سموگ۔ دھند اور دھویں کا امتزاج۔ سموگ خاصا رومانوی سا نام ہے۔ اس نام میں، وہ سب قہر، زہر، ہیبت شامل نہیں ہے، جو حقیقت میں ہے، اور جسے اس شہر کے آدمی ہی نہیں، درخت، پرندے، حشرات، جانور سب محسوس کررہے ہیں اور واقعی مصیبت میں ہیں۔ یہ آسیب ہے۔ اس شہر کے آسمان اور زمین کے بیچ معلق، ایک ہیبت ناک آسیب۔ یہ آسیب ہی ہے کہ عین دوپہر کو سورج کبھی نظر آتا ہے تو ایک زدر، میلی ٹکیہ کی مانند۔ اپنی تقدیرپربرافروختہ اورہماری حالت پررنجیدہ۔
لاہور بلاشبہ شہر ادب ہے۔ لیکن اب یہ شہرِ آ سیب بھی ہے۔ دنیا کے اور شہر بھی اس آسیب کی زد میں ہے، لیکن لاہور کاآسیب، ان سب کا سرخیل ہے۔ لاہور کی فضا نے زہریلا ہونے میں، دنیا بھر کے شہروں کو مات دے دی ہے۔
یہ آسیب آیا کہاں سے ہے اور اس سے نمٹنا کیسے ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس شہر کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنانے، نیز زمین کو برباد کرنے کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس آسیب کو پیدا کرنا، ایک جرمِ عظیم ہے۔ فطرت اور عام انسانوں کے خلاف جرم عظیم۔
جرم کوئی کیک نہیں کہ اسے بہت سوں میں بانٹ دیا جائے۔ جرم وہ کرتا ہے جس کے پاس طاقت اور اختیار ہو۔ دنیا کو بنانے، بگاڑنے اور خاص طرح سے چلانے کی طاقت اور دنیا کے نقشے کو از سر نو مرتب کرنے، سرحدیں بنانے، انھیں توڑنے، کچھ شہروں کا انفراسٹرکچر بنانے، کچھ شہروں کو سرے سے انفراسٹرکچر سے محروم رکھنے، قوانین بنانے، انھیں اپنے حق میں بنانے کا اختیار۔
یہ طاقت و اختیار ہمیشہ چند لوگوں، چند جماعتوں کے چیدہ افراد، چند اداروں کے مخصوص، سربراہان کے پاس ہوا کرتے ہیں۔ طاقت و اختیار مرتکز رہناچاہتے ہیں۔ ان کی مساویانہ تقسیم کا تصور سراسر مثالی یعنی ناقابلِ حصول ہے۔ بڑاجرم وہی کرتا ہے، جو طاقت واختیار رکھتا ہے اورجواب دہی کے خوف سے آزاد ہوتاہے۔
طاقت واختیار سے محروم لوگ یا تو جرم کا نشانہ بنتے ہیں یا جرم پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ ان کی خاموشی بھی جرم کا حصہ اس وقت بنتی ہے، جب وہ ارادی ہو اور اپنا ایک منشارکھتی ہو، بے بسی کی پیدا کردہ نہ ہو۔
آلودگی کے آسیب کو پیدا کرنے کے ذمہ دار سب سے پہلے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے صاحبان طاقت واختیار ہیں۔ انھوں نے ہی ترقی، کے اس تصور کووضع اواختیار کیا کہ ہرشے: شہر، ذرائع رسل ورسائل، ہر طرح کی ٹیکنالوجی، اشیاے صرف کو مسلسل اور سیدھے خط میں ترقی دی جائے۔ اشیاکی کثرت ہو اور ہر شے کے مسلسل نئے ورژن متعارف کروائے جائیں۔ چیزوں کو جلد پرانا کرکے، نیا بنایا جائے۔ انھیں سریع، آسان، پرتعیش، پر کشش بنایا جائے۔ اس سب کی قیمت صرف اور صرف فطرت، زمین اور ماحول نے ادا کی ہے۔ قیمت وصول کرنے والے وہی صاحبان طاقت واختیارا ور ان کے معاونین ہیں۔ انھوں نے ہی شرفِ انسانی کی اس تعبیر کو عام کیا کہ انسانی مفاد ہی ہر شے کی قیمت ومعنویت کا بنیادی پیمانہ ہے۔
حقیقت یہ تھی کہ شرفِ انسانی کا یہ تصور پہلے ہی دن سے اشرافی تھا۔ کسی بھی شے کی ترقی، بہتری یا پرتعیش ہونے کا پیمانہ، سب لوگ نہیں، مختصر ومخصوص جماعت ہوا کرتی ہے۔ انھی کا مفاد، انسانی مفاد کا نام اختیار کرتا ہے۔
زمین کو جنت بنانے کا خواب بھی اپنی اصل میں ہمیشہ اشرافی رہا ہے۔ کیسا پیراڈاکس ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی جنت بسائی گئی ہے، اس کے بالکل پہلو میں جہنم وجود میں آگیا ہے۔ یوں بھی جنت کو جنت ہونے کے لیے، اپنے مقابل ایک جہنم کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
پہلی سرمایہ دارانہ اور دوسری ترقی یافتہ اشتراکی دنیا نے تیسری دنیا کو، اور آ ج کی گلوبل نارتھ نے گلوبل ساؤتھ کے بڑے حصے کوجہنم میں بدلا ہے۔ آج کے عہد کو مغرب بشر مرکز یت (Anthropocene) کا عہد کہہ رہا ہے۔ اس کا آغاز 1950 کی دہائی سے کرتا ہے، جب ایٹمی دھماکوں سےزمین کے سینے کو دوزخ بنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین کو دوزخ بنانے کا آغاز اس سے کہیں پہلے ہوچکا تھا، جب ترقی کے نام پر جنگلوں کو کاٹا جانے لگا تھا، زمین کی تہوں، سمندر کی گہرائیوں کا کھنگالا جانے لگا تھا، پہاڑوں کو گرینائٹ سے اڑایا جانے لگا تھا۔
جب کیمیائی ادویہ سے چندانسان دشمن حشرات کو مارنے کی خاطر، ماحول دوست حشرات کو قتل کیا جانے لگا تھا۔ جب انسانوں کے ساتھ ساتھ، فطرت کو باقاعدہ، کولونائز، کیا جانے لگا تھا۔ جب فطرت کی اندھی، ان تھک تسخیر ہی کو انسانی ترقی کا رومانوی نام دیا جانے لگا تھا۔ جب فطرت کو سمجھنے، اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے بجائے، اس سے بیگانگی اختیار کی جانے لگی تھی۔
اس عالمی اشرافیے کے خاندان کے کئی افراد ہمارے ملک، ہمار ے شہر لاہور کے صاحبان اختیار بھی ہیں۔ وہی اس سموگ کے آسیب کے ذمہ دار ہیں۔ جو مسلسل شہر کو ترقی کے نام پر ادھیڑتے رہتے ہیں۔ شہر کی توسیع اور کئی بار تزئین کی خاطر، زرعی و جنگلی حیات کا خاتمہ کرتے ہیں۔ کشادہ سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی ریل پیل کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ عوامی ٹرانسپورٹ کو عوام کے گھروں تک نہیں پھیلاتے۔ شہر کو انفراسڑکچر کے نام پر مسلسل ادھیڑتے رہتے ہیں۔ پہلے شہر کو پھیلاتے ہیں، پھر شہر کے سب، بعید حصوں کے فاصلے کو منٹوں میں طے کرنے کے نام پر انڈر پاس، فلائی اوور بناتے ہیں۔
بلاشبہ دھان کی فصل کی باقیات کو آگ لگانا بھی ایک سبب ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سبب تو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ سموگ کا آسیب آٹھ دس برسوں ہی سے کیوں؟ ظاہر ہے، بڑی وجہ شہر کی مسلسل توسیع، نجی گاڑیوں کی مسلسل، بڑھتی تعداد، پر تعیش برقی آلات، یہ آلات مہیا کرنے والے کارخانوں کا فضلہ، کئی منزلہ، شیشہ بند عمارات کی مسلسل تعمیر، اینٹوں کے بھٹے اور سیمنٹ کے کارخانے اور زمین وفطرت پر بوجھ پڑنے والے دیگر عوامل ہیں۔ ان سب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا ہر سال سموگ کا عفریت بڑا ہوتا جائے گا۔ ایک وقت آئے گا، جب لوگ اس کے بھی عادی ہوجائیں گے۔
ایک بار پھر اشراف واجلاف کی تقسیم گہری ہوگی۔ لاہور کے اشراف سردی کے موسم میں کسی پر فضا جگہ پر نئے گھر بنائیں گے۔ یا پھر اپنے گھروں، دفتروں، گاڑیوں، ریستورانوں، قہوہ خانوں میں "صاف ہوا مہیا کرنے والے آلات " (Air Purifier) نصب کروائیں گے۔ ان آلات سے فضا مزید خراب ہوگی، مگر اس کا نشانہ حشرات، پرندے، جانور اور ہم جیسے انسان بنیں گے!