Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Jab Tak Hai Zameen

Jab Tak Hai Zameen

جب تک ہے زمین

میرا پانچواں افسانوی مجموعہ، شائع ہوگیا ہے۔ مجموعے کا نام میراجی کی نظم چل چلاؤ، سے لیا گیا ہے۔ اس میں دس افسانے اور سات خواب کہانیاں ہیں۔ ان سات کہانیوں میں، میں نے اپنے خوابوں کو لکھا ہے، تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ۔

یہ افسانے کس نوعیت کے ہیں، اس کا کچھ اندازہ ان تین اقتباسات سے کیا جاسکتا ہے۔

"وہ کمرے کی چیزیں باربار دیکھتا۔ یہ بھول گیا تھا کہ انھیں کہتے کیا ہیں۔ چیزوں اور اس کے بیچ ایک کڑی تھی، وہ ٹوٹ گئی تھی۔ چیزیں سامنے موجود تھیں، کسی اچھی بری صفت، کسی نام کے بغیر۔ وہ محض شے تھیں، خود اپنے آپ میں قائم ہونے والی شے۔ ان کی جگہ اس کی دنیا میں ہے یا نہیں، وہ ابھی کچھ سمجھنے قاصر تھا۔ وہ ایک گہرے ملال، ایک ہولناک کمی اور ایک پورے عالم سے جلاوطن کردیے جانے کے الم کا شکار تھا"۔ (ورغلایا ہوا آدمی)

"دونوں نے ایک دوسرے سے اعتراف کیا کہ ان کی شادی کی عمر بس یہی چھ سال تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے دل کے روبرو یہ بھی تسلیم کیا کہ محبت کی عمر تو اس سے بھی کم تھی۔ جس رشتے کو مسلسل اخلاقی اور قانونی آسروں کی ضرورت رہے، وہ بوجھ ہے، ایک مری ہوئی شے کا بوجھ۔ دونوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان کے دلوں میں کسی اور نے جگہ نہیں بنائی، ان کے دلوں میں جس جگہ امنگ پیدا ہوا کرتی تھی اور انھیں قربت سے سرشار کردیا کرتی تھی، وہاں اب خاک ہے اور ویرانی اور اس کا سبب وہ دونوں نہیں، زندگی اور وقت کی سچائی ہے۔ اس سچائی سے بھاگ کر ہم کہاں جاسکتے ہیں! ایک دوسرے سے بے زاری اور نفرت کی دلدل میں۔ کیوں نہ ہم دوستوں کی مانند جی کر دیکھیں۔ دونوں نے اتفاق کیا"۔ (اپنے ماضی کے خدا)

"تم نے داروغہ کو اپنی فرمائشوں اور سوالوں کی ایک طویل فہرست تھما دی ہے۔

"وہ پہلے بٹ بٹ تمھیں تکتا ہے۔ پھر خفگی محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے: ٹھیک ہی سنا تھا۔ آلِ آدم جہاں جاتی ہے، وہیں اس کا جی نہیں لگتا۔ رہتی ایک جگہ ہے، خواب دوسری جگہ کے دیکھتی ہے اور فساد برپا کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر لیتی ہے۔ جنت میں فساد؟ یہ کہتے ہوئے، اس کی آواز بھرا جاتی ہے۔

"تم اس کی بات پر مسکرا دیتے ہو۔ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہتے ہو: تم آ لِ آدم کی سی ایک زندگی بسر کرکے تو دیکھو"۔

(پروشاسی، کروفر، فروشاسی)

"وہ سیکڑوں بار یہ تجربہ کرچکے تھے اور اب ان کے لیے یہ بات سائنسی صداقت کا درجہ رکھتی تھی کہ آدمی کا سب سے گہرا دوست ہی، اس کا سب سے سچا جاسوس ہے۔ خفیہ والوں کا آدھا کا م اس وقت ختم ہوجاتا، جب وہ ہر ادیب کے سب سے پرانے اور گہر ے دوست تک پہنچ جاتے۔ اگلا مرحلہ اس کا اعتماد حاصل کرنے کا ہوتا۔ خفیہ والوں کا یہ بھی تجربہ تھا کہ ہر آدمی کی قیمت ہے۔ خواہ وہ کسی پیشے سے متعلق ہو، کسی مرتبے کا حامل ہو۔ جو اپنی قیمت کو اپنی توہین سمجھتے، وہ اپنی قیمت، قیمت کا لفظ استعمال کیے بغیر، بڑھانے کی خواہش رکھتے۔ ان کی قیمت، ان کے ادبی مرتبے کے مساوی ہوتی۔ وہ اپنے ادبی مرتبے کا تعین، اپنے مشہور ترین معاصر سے تقابل کرکے کرتے۔ خفیہ والوں کو ادیبو ں کا اعتما د حاصل کرنے میں تھوڑا وقت ضرور لگا، دقت نہیں ہوئی"۔ (کچھ ملکوں میں تاریخ خود کو دہراتی ہے)

سنگ میل کے سی ای او، برادرم افضال احمد کے شکریے کے ساتھ۔ ٹائٹل کے لیےعزیز دوست ڈاکٹر الیاس کبیر کا شکریہ! ڈاکٹر اورنگ نیازی کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے مجھے اس کے اعزازی نسخے پہنچائے۔ میں اپنی علالت کے سبب سنگ میل نہ جاسکا۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari