Bheriya Aya, Bheriya Aya, Kya Mehaz Aik Ikhlaqi Kahani Hai?
"بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا": کیا محض ایک اخلاقی کہانی ہے؟
ہم سب نے بچپن میں "بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا" کی کہانی سنی یا پڑھی ہے۔ بعض جگہ بھیڑیے کی جگہ شیر ہے۔ اسے ایک اخلاقی کہانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ ایک اخلاقی سبق کے علاوہ بھی بہت کچھ کہتی ہے۔
ناول"لولیتا"کے مصنف ناباکوف نے ادب پر اپنے خطبات میں لکھا ہے کہ اس کہانی کا سب سے اہم پہلو، یہ اخلاقی سبق: کہ جھوٹ، موت کا باعث ہوسکتا ہے، نہیں ہے، بلکہ لوگوں کا بچے کے جھوٹ کو سچ سمجھ پر پہلے دونوں دنوں اکٹھا ہونا ہے۔ وہ اسے کہانی کی طاقت کہتے ہیں۔
بلاشبہ، ہر کہانی کی طاقت اور طلسم یہ ہے کہ وہ اپنے قارئین و سامعین کو سچ ہونے کا یقین دلاتی ہے۔ مگر دو باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ کہانی میں طاقت اور طلسم پیدا کیسے ہوتے ہیں؟ دوسرا یہ کہ کیا یہ حکایت واقعی ایک اخلاقی مقصد ہی کے تحت گھڑی گئی تھی؟
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں، سرد جنگ کے زمانے میں، یہ بات عام ہوئی کہ کہانی ہی نہیں، تمام فن کی طاقت، اس کے پیرایہ بیان میں ہے۔ یہ تک دعویٰ کیا گیا کہ پیرایہء بیان ہی سب کچھ ہے۔ کہنے والی باتیں عام ہیں، سب کے پاس ہیں، مگر اسلوب اور تکنیک سب کے پاس نہیں ہیں۔ ادبی جینئس اپنا اظہار، کیا، میں نہیں، کیسے، میں کرتا ہے۔
سرد جنگ کے دنوں میں کہی جانے والی یہ بات، سرد جنگ ہی کا حصہ تھی۔
ادب کا یہ تصور امریکی ہیئت پسندی نے، اشتراکیت سے مقابلے ہی کی خاطر پھیلایا تھا۔ نابا کوف، روسی تھے اور 1940ء میں امریکا منتقل ہوئے تھے۔ انھوں نے صرف امریکی شہریت اختیار نہیں کی، سرد جنگ میں خود کو امریکی ثقافتی و ادبی اسلحے سے بھی لیس کیا۔ ان کا ناول "لولیتا" بھی، پیرایہ بیان کے ذریعے، جمالیاتی جادوئی طاقت پیدا کرنے کی کلاسیکی مثال ہے۔
ہمارا مئوقف یہ ہے کہ کہانی اور فن کی طاقت، کیا اور کیسے دونوں میں ہے۔ جب ہم فن کی طاقت کو محض اسلوب میں مرتکز دیکھتے ہیں تو ہم تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ موضوع اور اسلوب میں ثنویت موجود ہے۔ اسلوب نہ صرف موضوع سے جدا ہے، بلکہ وہ برتر بھی ہے۔ اسلوب اپنی ساحری سے، موضوع کو گویا مسلسل شکست دیتا چلاجاتا ہے۔
ادب اور فن میں موضوع کا غیر اہم ہونا، جس کی انتہا، اس کا شکست کھانا ہے، معمولی واقعہ نہیں ہے۔ موضوع کی شکست، ادب کے معانی کی شکست ہے۔ جمالیات کے ہاتھوں، معنیات کی شکست ہے۔ ادب ہم آہنگی اور آویزش کا جویا ہوتا ہے۔ لفظ و معنی، موضوع و اسلوب میں ہم آہنگی یا ان میں آویزش و تناؤ۔ ثنویت اور تناؤ میں فرق ہے۔ ثنویت میں، اسلوب موضوع سے برتر اور اس پر غالب ہے، جب کہ تناؤ میں موضوع اور اسلوب دونوں جدا تو ہیں، مگر دونوں بہ یک وقت اہم ہیں، اور ان میں تناؤ معنی خیزی کا باعث ہوتا ہے۔
موضوع اور اسلوب دونوں یکساں اہم ہیں۔ تاہم دونوں کے اہم ہونے کا تصور، یکساں نہیں ہے۔
اسلوب جمالیاتی طور پر اہم ہے، جب کہ موضوع سماجی، سیاسی، نفسیاتی، وجودی، روایاتی، اخلاقی طور پر اہم ہے۔ اگر ہم موضوع کے اہم ہونے کے تصور کو ترک کردیں تو پھر ساحرانہ اسلوب میں، سیاسی پروپیگنڈہ سمیت کئی طرح کی نسلی، مذہبی، لسانی، صنفی عصبیتوں، دشمنیوں، نفرتوں، اہانتوں کو پیش کیا جاسکتا ہے، اور ادب ان کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
آپ صرف اسلوب کے جادو کو سراہیں گے، سر دھنیں گے، معنی سے صرفِ نظر کریں گے۔
کافکا نے آخر اپنے دوست کو ایک خط (1904) میں کیوں لکھا کہ "میرا خیال ہے کہ ہمیں صرف وہ کتابیں پڑھنی چاہییں، جو ہمیں مجروح کریں یا چھید ڈالیں۔ اگر وہ کتاب، جس کا ہم مطالعہ کررہے ہیں، وہ ہمیں سر پر ضرب لگا کر نہیں جگاتی، تو (ہمیں یہ سوال خود سے کرنا چاہیے کہ) ہم سے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ کیا اس لیے پڑھ رہے کہ وہ ہمیں خوش کرے، جیسا کہ تم لکھتے ہو؟ ہمیں ایسی کتابوں کی ضرورت ہے جو ہم جو ہم آفت کی طرح اثر کریں، جو ہمیں گہرے دکھ میں مبتلا کریں۔ جیسے کسی ایسے شخص کی موت، جس سے ہم خود سے زیادہ محبت کرتے تھے، جیسے سب سے دور جنگلوں میں جلا وطن ہونا، جیسے خود کشی۔ ایک کتاب ہمارے اندر کے منجمد سمندر کے لیے تیشہ بننی چاہیے۔ یہ میرا ایمان ہے"۔
اور کینڈین شاعر آئرونگ لیٹن نے نظم "میں کس کے لیے لکھتا ہوں؟" میں یہ لائنیں کیوں لکھیں؟
جب تم مجھے پڑھو، تو میں چاہتا ہوں کہ تم یہ محسوس کرو
جیسے میں نے تمھاری جلد کو چیر کر الگ کردیا ہو
یا اپنی انگلیوں سے تمھاری آنکھیں نکال دی ہوں
یا تمھیں گنجا کردیا ہو، اور پھر تمھارے بالوں کو جلا کر
ان کھوکھلی آنکھوں میں ڈال دیا ہو، اس سے پہلے کہ میں انھیں
تمھارے بیٹے کے لائٹر کے مائع سے بھردوں
میں چاہتا ہوں کہ تم یہ محسوس کرسکو کہ جیسے میں نے
تمھارے بچے کا سر کسی نیزے سے ٹکرادیا ہو
کتاب کو تیشہ محض اسلوب نہیں بناتا۔ آنکھوں کو چیرنے والی نظمیں محض اپنے پیرایہ اظہار کے سبب نہیں ہوا کرتیں۔
مذکورہ بالا کہانی موضوع و اسلوب میں ہم آہنگی کے ذریعے، طاقت و طلسم پیدا کرنے کی مثال ہے۔ کہانی کا بچہ، اپنے پیرایہء بیان سے لوگوں کو خطرے کا یقین دلانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اگر یہ بچہ ایک شدید خطرے کا اظہار، اپنے پھولے، اکھڑے سانس، زرد چہرے کے ساتھ نہ کرتا، اپنے بیان میں شیر کا خوف ناک، حقیقت کے قریب امیج نہ بناپاتا تو لوگ اس کا یقین نہ کرتے۔ وہ بہ طور کہانی کار ناکام ہوتا۔
غور کیجیے: اگر یہاں شیر یا بھیڑیا کے بجائے گدھے کا ذکر ہوتا تو کیا بچے کا پیرایہ بیان پھر بھی اتنا مؤثر ہوتا اور لوگ، اس کا یقین کرکے، جنگل کی طرف دوڑتے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کا امکان ہے، اگر بچے کی سانسیں اکھڑی ہوئی ہوتیں، اور وہ گدھے کو خوں خوار بنا کرپیش کرتا۔ گویا یہ امکان بھی اس وقت پیدا ہوتا، جب گدھے سے خوں خواری کی صفات وابستہ کی جاتیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ سمجھنا کہ یہ کہانی ایک اخلاقی مقصد: جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، کو پورا کرتی ہے، نظر ثانی کا طالب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کہانی، جھوٹی ہوتی ہی نہیں۔ اس بچے نے بستی کے پاس بھیڑیے کے خطرے کو تو محسوس کرلیا، مگر وہ وقت کا صحیح تعین نہیں کرسکا۔
وہ جب بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا کا شور مچارہا تھا، وہ واقعی بھیڑیے کو دیکھ رہا تھا۔ بچہ جھوٹا نہیں تھا، بستی کے لوگ اس بچے کی پیمبرانہ پیش گوئی کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ بچے کا جھوٹ، اس کی موت کا باعث نہیں بنا، بستی والوں کی کہانی کی پیش گویانہ صلاحیت کو سمجھنے کی کمی، اور نتیجے میں بچے کے لیے ہم دلی کا فقدان، اس کی موت کا سبب بنے۔ اس کہانی کا ایک ان کہا پہلو یہ ہے کہ جس بھیڑیے نے بچے کو ترنوالہ بنایا، وہ بستی کے دوسرے لوگوں کو بھی بنائے گا۔