Aslam Ansari
اسلم انصاری
ہاروکی موراکامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "موت، زندگی کی ضد نہیں ہے، بلکہ اس کا حصہ ہے"۔ جو دنیا سے چلا جاتا ہے، وہ ہماری زندگیوں میں پہلے سے زیادہ شامل ہوجاتا ہے۔
ہم جیتے جی، جن کی موجودگی پوری طرح محسوس نہیں کرتے، ان کے انتقال کے بعد اپنی زندگیوں میں انھیں شدت سے، ہر پل، طرح طرح کے احساسات کے ساتھ شامل محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے عزیزوں، اور علم وادب کی ممتاز ہستیوں پر صادق آتی ہے۔
ڈاکٹر اسلم نصاری، معاصر اردو ادب کی معتبر ہستی تھے۔ وہ صرف ملتان کی نہیں، پورے پاکستان کی ممتاز علمی و ادبی شخصیت تھے۔ وہ صحیح معنوں میں ممتاز تھے۔
ان کے پاس واقعی کئی امتیازات تھے، جو معاصر اردو ادب میں کم کم لوگوں کو نصیب ہیں۔ انھیں اردو، فارسی، انگریزی، سرائیکی پر مکمل دست رس تھی۔ وہ ان چاروں زبانوں میں لکھتے بھی تھے۔ گویا ان کے پاس دنیا کو دیکھنے کی چار عظیم الشان کھڑکیاں تھیں۔
انھوں نے سکول کے دنوں میں لکھنا شروع کردیا تھا اور جلد ہی یہ راز پالیا تھا کہ، ادب کا مسئلہ سب سے پہلے زبان کا مسئلہ ہے۔ زبان کے سلسلے میں کوئی محرومی، کم مائیگی، لکنت، تخیل کی محرومی و افلاس کا باعث ہوسکتی ہے۔ انھوں نے بیدل پر اپنے ایک مضمون میں بیدل ہی کا یہ مصرع نقل کیا ہے، جسے میں نے عنوان بنایا ہے۔ یہ کہ "تم جو بھی نقش دیکھ رہے ہو، وہ ایک ایسا حرف ہے جسے تم سن رہے ہو"۔
تخلیق کار جسے دیکھتا ہے، اسے سنتا بھی ہے۔ ایک ہی شے کے تعلق سے اس کے یہاں ایک سے زیادہ حسیات، بہ یک وقت کام کرتی ہیں۔ وہ جس نقش کو دیکھتا ہے، وہ اسے کے آگے گویا ہوجاتا ہے، اس سے کلام کرنے لگتا ہے۔ پھر وہ کلام کے ذریعے نقش بناتا ہے۔ ادیب کے پاس، دنیا کو دیکھنے، سمجھنے، برتنے اور پھر خلق کرنے کے لیے زبان ہے۔ اگر وہ نگارخانہ عالم کو عالمِ حرف وبیان میں نہ بدل سکے، اور یہ عالم، پھر دنیا سے گویا نہ ہوسکے تو اس کا سفر ادب رائیگاں جاتا ہے۔ اسلم انصاری نے اپنے سفر ادب میں کئی بڑی کامیابیاں سمیٹیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلم انصاری نے ایک سے زیادہ زبانوں کو ذریعہ اظہار بنایا۔ سرائیکی ان کی مقامی تھی۔ اس میں ناول بھی لکھا، جس کا اردو ترجمہ الیاس کبیر نے "ناؤ میں ندیا" کے عنوان سے کیا۔ اردو، قومی زبان ولنگوافرینکا تھی۔ سب سے زیادہ سرمایہ اسی میں تخلیق کیا۔ فارسی ان کی تہذیبی زبان تھی، جس میں ان کا کلیات اکادمی ادبیات، اسلام آباد نے شائع کیا۔ انگریزی، عالمی زبان تھی، جس میں انھوں نے نظمیں اور ڈرامے لکھے۔ خواجہ فرید کی کافیوں کے انگریزی ترجمے میں بھی ہاتھ بٹایا۔
اردو میں غزل و آزاد نظم کے علاوہ رباعیات تخلیق کیں۔ طویل منظوم تمثیلیں بھی لکھیں۔ ان کی نظم "تکرار تمنا"، جسے وہ منظوم تصوریہ کہتے ہیں، بہت اہم ہے۔ "ارمغان پاک" کے عنوان سے ہند وستان میں مسلم تشخص کے ارتقا کی منظوم تاریخ بھی لکھی۔
ان کا شاعری کا تصور، معاصر اردو شاعری سے مختلف تھا۔ اگرچہ انھیں شہرت، غزلوں سے اور کچھ نظموں (جن میں "گوتم کا آخری وعظ" بہ طور خاص اہم ہے) سے ملی، مگر ان کے لیے شاعری بہ یک وقت شخصی رومانوی، قومی و اخلاقی اور تاریخی و تہذیبی اظہار سے عبارت تھی۔ ان کا رشتہ ایک طرف اپنے معاصرین میں ناصر کاظمی سے بہ طور خاص قائم ہوتا ہے تو دوسری طرف بیدل، میر، غالب اور اقبال سے۔ ان چاروں پر انھوں نے باقاعدہ کتب بھی تصنیف کیں۔ اپنی فارسی شاعری میں بیدل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، ان کی طرز میں لکھا۔ اقبال سے اظہار عقیدت کے لیے "فیضانِ اقبال" تخلیق کی۔ اقبال کی شاعری کی روح کی اپنے شعری تخیل میں تعمیر وتعبیر کی۔
وہ جدید عہد میں، اردو میں حقیقی کلاسیکی عالم ادیب کی چند مثالوں میں سے ایک مگر ممتاز تھے۔ جدید دنیا کی تخصص پسندی نے کلاسیکی عہد کے ادیب کی قاموسی وژن کا فراموش کردیا۔ اکثر جدید ادیب ایک زبان، ایک صنف، چند ایک موضوعات تک اسیر ہوگئے۔ جدید عہد نے وژن کی وسعت وتنوع کو خیال کی گہرائی و عمق پر قربان کردیا۔
اسلم انصاری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ جدید زمانے سے بیگانہ تھے، نہ اسے باقی کلاسیکیت پسندوں کی مانند، برا بھلا کہتے تھے۔ ان کے یہاں جدیدیت کے خلاف کوئی نظریاتی محاذ موجود نہیں تھا، جیسا کہ ہم عربی فارسی پر دست رس رکھنے والے، اردو ادیبوں کے یہاں عام طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ علوم کی مختلف شاخوں ا ور ادبیات کی مختلف روایات سے استفادے میں یقین رکھتے تھے۔
فلسفے کے تو وہ باقاعدہ طالب علم تھے۔ ان کے یہاں قومی و ملی احساس ضرور تھا اور ان کی شاعری میں بھی ظاہر ہوتا تھا، مگر وہ اسے مقامی و عالمی فکریات کے خلاف کوئی مورچہ نہیں بناتے تھے۔ یہ چیز بھی انھیں ممتاز بناتی ہے۔
ان کی غزل، اردو غزل کی روایت میں ایک مقام رکھتی ہے۔ روایتی تغزل بھی ہے، عشق اورمعارف وجود کا اظہاربھی ہے، اور ثبات ودوام کے فلسفیانہ رموز بھی۔
ذرا یہ اشعار دیکھیے:
زینہ زینہ وقت کی تہ میں اتر جائیں گے ہم
ایک دن یہ قلزم خوں پار کر جائیں گے ہم
صاحبو، کیا خاک اڑتی ہے سر کوئے حیات
عمر کا دامن تو پھر مٹی سے بھر جائیں گے ہم
وہ تو اپنی ذات کا اک ماجرا درپیش ہے
ورنہ یوں دیکھو تو ہم سا دوسرا کوئی نہیں
آئنہ خانہ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
کون سا موڑ ہے، کیوں پاؤں پڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں، کوئی پکارا بھی نہیں
کو ن ہوتا ہے شریک غم ہستی، اے دوست
ڈال بھی سوکھے ہوئے پات گرادیتی ہے
پتے بھی چپ چاپ، ہوا ٹھہر گئی ہے
اس دشت میں ایک ایک صد ا ٹھہر گئی ہے
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گرپڑوں گا، دیکھ مجھے آسرا نہ دے
پیچھے ہٹوں تو پاؤں پکڑتی یہ زمیں
آگے بڑھوں تو وہم کوئی راستہ نہ دے