Ahmed Farhad Ke Liye
احمد فرہاد کے لیے
احمد فرہاد کئی دن سے گم شدہ و لاپتہ ہیں۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ کون، کب، کسے لاپتہ کیا کرتا ہے اور چاہے تو ماردیا کرتا ہے۔ دنیا اخلاقیات اور قاعدے قانون کے تحت نہیں، طاقت کے تحت چلتی ہے۔ جنھیں ہم قاعدے قوانین کہتے ہیں، انھیں خواہ دنیا کے اعلیٰ ترین اذہان بنائیں یا وہ ممتاز ترین مذہبی ہستیوں کے دیے گئے ہوں، وہ طاقت کے رحم و کرم پر ہوا کرتے ہیں۔
کئی قاعدے قوانین خود طاقت وضع کیا کرتی ہے، کسی سے مشورے کے بغیر اور کسی پر اس کے جملہ اثرات کا جائزہ لیے بغیر۔ آپ اس وقت تک محفوظ ہیں، جب تک راست طاقت پر، اس کے اختیار کی حد پر، اس کے اختیار کے آئینی واخلاقی و قانونی جواز پر سوال نہیں کرتے۔
اگر آپ سوال بھی کرتے ہیں، اور ان سوالوں میں چبھن بھی ہو تو پھر آپ محفوظ ہیں، نہ آپ سے وابستہ افراد۔ یہ اس دنیا کی تلخ ترین اور بھیانک ترین سچائی ہے۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جتنے شاعر ادیب و دانش ور اب تک محفوظ ہیں، اور نامعلوم ہونے سے بچے ہوئے ہیں، وہ اس تلخ سچائی کو قبول کرکے، دامن بچاکر چلنے والے لوگ ہیں۔
احمد فرہاد شاعر ہے، ایک عمدہ شاعر۔ لیکن وہ حسن و عشق و ہوس جیسی محفوظ ترین پناہ گا ہ سے اکتایا ہوا شاعر ہے۔ وہ ہمارے زمانے کے پاپو لر شاعروں کی قبیل میں سے نہیں ہے، جنھوں نے شاعری کو تفریح بنادیا ہے، تفریح بھی نہایت سستی، اور نہایت بے ضرر۔ بے ضررہی نہیں طاقت کے لیے بے حد کارآمد۔ وہ مزاجاً ترقی پسند ہے، مگر فیض سے زیادہ حبیب جالب کی وراثت کو لے کر چل رہا ہے۔ وہ بے باک ہے، بے پروا بھی، خود اپنے انجام سے بے پروا بھی۔ اس کے یہاں غصہ ہے، رنج ہے، الجھنے اور للکارنے کا رویہ بھی ہے۔ راست للکارنے کا رویہ۔
اور سب سے بڑھ کراس کے پاس سوال ہیں۔ سوال بھی نوک دار۔ کانٹے کی طرح نوک دار نہیں، کسی خنجر کی مانند نوک دار۔ یعنی اس قدر نوک دار کہ ان سوالوں کو سرعام دہرانا بھی دل گردے کا کام ہے۔
طاقت کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ سوال درست ہے یا غلط، اسے صرف اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ کیا اسے سرعام مخاطب کرکے، اس کے جواز کو چیلنج کیا جارہا ہے؟
طاقت جس چیز کو سخت ناپسند کرتی ہے، وہ جواب دہی ہے۔ عشق سے زیادہ طاقت میں نرگسیت پسندی ہوا کرتی ہے۔ طاقت پر شاعر، مصور، ادیب، دانش ور سوال اٹھایا کرتے ہیں مگر اس کی روک ٹوک یا تو عوام کی طاقت کرسکتی ہے یا نظام انصاف۔
کیا ہم اپنے نظامِ انصاف سے کچھ امید باندھ سکتے ہیں؟