Aag Gulistan Na Bani
آگ گلستاں نہ بنی
سعیدہ گزدر عرصے سے خاموش زندگی بسرکررہی تھیں۔ ان کے انتقال پر بھی، دو چار کلمات رنج وافسوس کے سوا، اردو دنیا میں خاموشی طاری رہی ہے۔۔ سنگین وسفاک خاموشی۔
حالاں کہ سعیدہ گزدر کا مسلک خاموشی نہیں تھا۔ ان کا مسلک جبر کی ہر صورت کے مقابل بولنا، لکھنا، یعنی گواہی دینا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ ہر گواہی ایک فریق کے حق میں، اور دوسرے کی مخالفت میں ہوا کرتی ہے۔ وہ دونوں فریقوں: مقتدرو جابر اور محروم و محکوم ہی کو نہیں، خود ادیب کے منصب کو بھی پہچانتی تھیں۔ اس منصب کی شناخت، انھیں ترقی پسند نظریے نے دی تھی۔
انھوں نے افسانے اور شاعری لکھی۔ سبطِ حسن کے ساتھ "پاکستانی ادب" کی ترتیب میں شریک رہیں۔ اس پرچے کا نئی نسل نمبر" بہ طور خاص اہم تھا۔ اس زمانے (1976ء) کی نئی نسل، اکیسویں صدی کے اوائل کی بزرگ نسل تھی، اس کے کچھ نمائندے آج بھی موجود ہیں۔ اس رسالے میں سعیدہ گزدر کا نئی نسل پر مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
تقسیم سے پہلے الہٰ آباد سے پاکستان ہجرت کرنے والی سعیدہ گزدر نے 1980ء، جب بھٹو کی پھانسی کو ایک برس ہوا تھا، اپناافسانوی مجموعہ: " آگ گلستان نہ بنی " شائع کیا۔ اس میں معاصر عہد اور پاکستان کی تئیس برس کی تاریخ کی گواہی پر مبنی افسانے شامل تھے۔ یہ گواہی، گراں گزری۔ کتاب پر پابندی لگادی گئی۔
میں نے اردو میں مزاحمتی افسانے پر اپنے ایک مضمون (جو "یہ قصہ کیا ہے معنی کا " میں شامل ہے) میں اس کتاب کے کچھ افسانوں پر لکھا ہے۔ سعیدہ گزدر کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے فن کے اختصاص پر کچھ بات کریں۔ ان کے صرف ایک افسانے پر گفتگو یہاں پیش کررہاہوں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سب آج کے متعلق ہے۔ پاکستان میں تاریخ ایک مقام پر ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
"کتاب کا نام(آگ گلستان نہ بنی) ہمیں حضرت ابراہیمؑ کے اس واقعے کی طرف متوجہ کرتا ہے جس میں نمرود نے انھیں آگ میں ڈالا مگر جو گلزار بن گئی۔ جس آگ کا ذکر سعیدہ گزرد کرتی ہیں، وہ گلستاں نہیں بن سکتی۔
پہلے افسانے میں، جس پر کتاب کا نام رکھاگیا ہے، دنیا کی پہلی دستیاب کتاب گل گامش کی طرف اشارے ہیں۔ افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ گل گامش نے جبر کے ذریعے شہر کو ناپاک کردیا ہے۔ انکیدو کہتا ہے کہ وہ گل گامش کو للکارے گا۔ انکیدو کی یہ للکار افسانے کے مرکزی کردار میں سنائی دیتی ہے۔ گویا جبر اور اس کے خلاف مزاحمت کی تاریخ پرانی ہے۔
اس افسانے کا بیانیہ، آمریت کو راست بیان کرنے کے بجائے، ترچھے انداز میں بیان کرنے کا ہے۔ اس میں مزاحمت، محبت کی کہانی کے متوازی اور محبت کی کہانی کے باطن سے ظاہر ہوتی ہے۔ دونوں کی افلاطونی محبت کا زمانہ 1979ءکے بعد کا ہے، جب بھٹو کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ لڑکا ملک کو، لوگوں کو بدلنا چاہتا ہے مگر نہیں بدل پاتا۔ لڑکی، پولیس کے سوالوں کے کٹہرے میں دکھائی گئی ہے۔ پولیس اس سے پوچھتی ہے کہ لڑکے کاکس جماعت سے تعلق تھا؟ اس کے ساتھ سازش میں کون کون شریک تھا؟ کہانی کے مطابق لڑکا سب قسم کے لوگوں کے پاس جاتا تھا۔ سب جماعتوں کے خفیہ جلسوں میں شریک ہوتا تھا مگرآخر میں سب سے مایوس ہوگیاتھا۔ افسانے میں کچھ بنیادی سوالوں کے جواب تلاش کیے گئے ہیں۔
مثلاًلوگ جبر کو قبول کیوں کر لیتے ہیں؟ افسانے میں ایک خچر پر کوڑے برساتے دکھائے گئے ہیں۔ جانور کو سدھانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے خوب مارو۔ مار کھا کر جانور سدھ جاتا ہے اور دم ہلاتے ہوئے اسی ہاتھ سے خوراک لینے کا انتظار کرتا ہے جس میں کوڑا تھا۔ آدمی بھی جانور بنادیے جائیں یا وہ خود کو جانور سمجھنے لگیں تو وہ اسی ہاتھ کو چومتے ہیں جو انھیں عقوبت کے سپرد کرتا ہے۔ افسانے میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ "جو ہاتھ ہمیں پیٹتے ہیں (کیاہم) انھی کو مضبوط کررہے ہیں؟" اس سوال کا جواب اسی سوال ہی میں ہے۔
افسانے میں بتایا گیا ہے کہ جب سرعام کوڑے لگائے جاتے ہیں یا پھانسی دی جاتی ہے تو لوگ جوق در جوق اسے دیکھنے جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ منظر عبرت سے زیادہ تفریح کا ہوتا ہے۔ مگرلڑکا (جو چیزوں کی اصل کو سمجھنے والے ایک اقلیتی گروہ کی نمائندگی کرتا ہے)یہ منظردیکھ کر کانپ جاتاتھا۔ یہی کچھ رومیوں کے یہاں ہوتا تھا۔ بھوکے ننگے رومی عوام، گلیڈی ایٹرز کو لڑتے اور بھوکے شیروں کا لقمہ بنتے ہوئے دیکھتے تھے۔ کیا طاقت ہر جگہ اور ہرزمانے میں ایک ہی طریقے سے کام کرتی ہے؟ بھوکا آدمی، اپنی بھوک کا غم غلط کرنے کے لیے ہجوم اور کھیل کا حصہ بننا پسند کرتا ہے؟
لڑکا سوال کرتا ہے کہ آخر اخباروں کے مدیر اور ڈاکٹر سرعام کوڑوں کے انسانی جسم پر اثرات کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ حساس لڑکا کچھ ہی عرصے میں بوڑھا دکھائی دینے لگتا ہے۔ جبر کے سلسلے میں لوگوں کی خاموشی، اسے اخلاقی نوعیت کے سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ پوچھتا ہے: کیا ہم سب اخلاقی مجرم ہیں؟ کیوں کہ صرف اخلاقی مجرم ہی کسی ساتھی قیدی پر ہونے والے ظلم وستم کو محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوال آج کشمیر کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ادیب اور عوام سب سے پوچھتے نظر آتے ہیں۔
لڑکا یہ دیکھ کر دکھی ہوتا ہے کہ اسی ملک کے لوگ جو پہلے سیاسی جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے، اب اسی ذوق و شوق سے کوڑے لگتے دیکھتے ہیں اور ہاکی وکرکٹ کا میچ دیکھتے ہیں۔ تفریح، تشدد، سرمایہ داریت اور آمریت میں گہرا اور خاصا پیچیدہ مگر لازمی رشتہ ہے۔ تفریح جہاں سرمائے کی افزائش سے جڑی ہے، وہیں جبر کے خلاف حقیقی غصیلے جذبات کو دبانے، ٹھنڈا کرنے یا ان کا رخ بدلنے کے کام آتی ہے۔ جیسے جیسے جبر، استحصال، انسانی وقار کو مجروح کرنے والے عوامل بڑھتے ہیں، تفریحی سرگرمیاں بھی بڑھتی ہیں۔ ہر قسم کی تفریحی سرگرمیاں، بہ شمول مزاحیہ مشاعرے۔ خالدہ حسین کے افسانے "سواری" میں بھی دکھایا گیا ہے کہ شہر میں جیسےجیسے ناگوار بو بڑھ اور پھیل رہی تھی، تفریح سرگرمیاں بڑھتی جارہی تھیں۔ دوسری طرف آمریتوں میں حقیقی آرٹ ڈسٹوپیائی ہوتا جاتا ہے۔ مزاحمت کے سب افسانے تاریکی کو علامتی یا طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
"آگ گلستاں نہ بنی " کالڑکا سوچتا ہے کہ کہیں یہ ملک قبرستان تو نہیں؟ لیکن پھر سوچتا ہے کہ قبرستان میں بھی کتے بھونکتے ہیں اور سناٹے کو توڑتے ہیں۔ کیا اس ملک سے کتے بھی ختم ہوگئے ہیں یا وہ بھونکنا بھول گئے ہیں؟ اسے لوگوں کے سکوت مرگ آسا کا جواب مل جاتا ہےکہ"سب اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں کہ میری گاڑی، میر اپٹرول، میرے بچے اچھے سکول میں پڑھ لیں۔ میرا ریفریجریٹر کھانوں سے بھرا رہے۔ مجھے علاج کی سہولتیں ملتی رہیں۔ میری آمدنی بڑھتی رہے۔ پھر سب ٹھیک ہے"۔ سرمایہ داریت کی آسائشیں اور سماجی مراتب، ہر قسم کی مزاحمت کو "اپنا " لینے کی جادوئی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ملنے کے بعد واقعی سب ٹھیک ہوتا ہے؟ کیا آدمی کو اخلاقی زندگی پر تحفظ اور آسائش کو ترجیح دیے کر ایک نارمل زندگی بسر کرسکتا ہے؟ یہ افسانہ اسی نوعیت کے بنیادی سوال اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح کے کئی دیگر سوال لڑکےکے سر میں آگ لگاتے ہیں۔ لڑکی کی محبت بھی اس آگ کو نہیں بجھا سکتی۔ وہ اس کے لمس کی منتظر رہتی ہے مگر وہ ایک خیالی، یوٹوپیائی دنیا میں جینا شروع کردیتاہے، وہ لڑکی کو ایک خالی تالاب میں خیالی طور پر تیرنا سکھا تا ہے اور ایک نامعلوم راستے پر ایک نئی جنگ لڑنے کے لیے چلا جاتا ہے۔ آگ گلستاں نہیں بنتی! وہ آگ آج بھی جل رہی ہے اور گلستاں نہیں بنی۔ بس اس آگ کا اب قصہ کم کم لکھا جاتا ہے"۔