Aadmi Kahani Kehne Wala, Zimmedar Janwar Hai
آدمی کہانی کہنے والا، ذمہ دار جانور ہے
"وطن اور جلا وطنی" میں چنوا اچیبے جس بحث کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں، وہ یہ ہے: آدمی کہانی کہنے والا جانور ہے۔ آدمی سفید فام ہو یا سیاہ فام، کہانی اس کے ثقافتی وجود کے اثبات و شناخت کا اہم ترین اور شاید مستند ذریعہ ہے۔
یہ درست ہے کہ آدمی کی شناخت کے اس فرضیے کی مدد سے اچیبے اپنے کہانی کار ہونے کی جبلت کی تشریح کرتے ہیں، مگر یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ ان کے کہانی کار ہونے کی جبلت ان کے نو آبادیاتی ماضی میں جڑیں رکھتی ہے۔ یہ محض ایک شخص کی جبلت نہیں، ایک افریقی شخص کی جبلت ہے۔ اسی لیے اچیبے یہ تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ کہانی معصوم، ہوتی ہے۔
اس کا لازماً تاریخی و ثقافتی کردار ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں: "اگرچہ فکشن افسانوی ہوتا ہے، مگریہ سچا یا باطل بھی ہو سکتا ہے، خبر کے سچے یا جھوٹے ہونے کے مفہوم میں نہیں، بلکہ اپنی بے غرضی، منشا اور سالمیت و راست بازی کے ضمن میں"۔
دوسرے لفظوں میں وہ آدمی کو محض کہانی کہنے والا جانور نہیں، ایک ذمہ دار جانور قرار دیتے ہیں۔ ہر کہانی، اپنی رسمیات سے لے کر کرداروں، واقعات کی ترجمانی تک اپنے ثقافتی پس منظر میں جڑیں رکھتی ہے، مگر کہانی کار کو آگاہ ہونا چاہیے کہ اس کی کہانی کہاں کس ثقافتی سٹیریو ٹائپ کی ترجمانی کر رہی ہے اور کہاں ایک بے غرضانہ موقف اختیار کر رہی ہے؟
اچیبے کے یہاں بے غرضانہ موقف سے مراد ایک ایسی نظر ہے جو سچ اور تشکیل میں فرق کر سکے اور کسی تشکیل کی اندھی ترجمانی سے گریز کرے۔ وہ اکثر سیدھی سادی بات کہتے ہیں۔ مثلاً جون لاک (جو ایک انگریز کپتان تھے) کی مثال دیتے ہیں جس نے 1541 میں جنوبی افریقا سے متعلق اپنے سفرنامے میں نیگرو لوگوں کے بارے میں لکھا کہ "یہ ایسے لوگ ہیں جو وحشیوں کی طرح رہتے ہیں، خدا، آئین اور مذہب میں یقین نہیں رکھتےجن کی عورتیں سب کی سانجھی ہیں کیوں کہ وہ شادی نہیں کرتے اور نہ ہی عصمت نسواں کو مانتے ہیں"۔
اچیبے اس رائے کو افریقا کا سچ نہیں، ایک ایسی تشکیل روایت کہتے ہیں جس کی پیروی یورپ کے اکثر لکھنے والوں نے کی۔
سولھویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف تک اس تشکیل کو افریقا کا سچ بنا کر پیش کرنے کا سبب کیا تھا؟ اچیبے کے نزدیک، یہ سبب ان تمام اقدامات کو جواز فراہم کرنا تھا، جو سفید فام لوگوں نے افریقیوں کو غلام بنانے سے لے کر ان کی زمینوں پر قابض ہونے کے سلسلے میں کیے۔ یورپی استعماری ذہنیت کا ساتھ یورپی تخیل نے دیا۔ غلام بنانا، ایک قبیح عمل تھا، اس کی قباحت کا احساس کہیں نہ کہیں ان استعمار کاروں کو بھی تھا اور ان کے ضمیر پر بوجھ پڑتا تھا۔ کہانی کاروں نے افریقیوں کو وحشی، مذہب، اخلاق و تہذیب سے عاری قرار دے کر اپنے سیاسی و انتظامی زعماکو ضمیر کے بوجھ سے آزاد کیا۔ آخر ایک وحشی کو غلام نہ بنایا جائے تو کیا کیا جائے!
کہانی کا جواب کہانی ہے۔ اچیبے کے اس خیال کے ضمن میں غالب کا ایک فارسی شعر یاد آتا ہے:
جز سخن کفر ے وایمانے کجا ست
خود سخن از کفر و ایماں می رود
کفر و ایماں جیسی دو متضاد چیزیں اپنی اصل میں باتوں ہی میں پائی جاتی ہیں اور خود باتیں بھی کفر و ایماں کو ثابت کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ گویا کفر و ایمان کی، استعمار اور ردّاستعمار کی ساری جنگ سخن کہانی میں لڑی جاتی ہے۔ کفراستعمار نے سٹیریو ٹائپ پر مبنی بیانیے گھڑے، ان کے ردّ میں مقامی باشندوں کے ایمان نے بیانیے وضع کیے۔ اسے اچیبے کہانیوں کا توازن بھی کہتے ہیں۔