Mustaqbil Ka Congo
مستقبل کا کانگو
کچھ سال پہلے ہمارے ایک عزیز جوکہ فوج میں تھے اقوام متحدہ کے مشن United Nations Stabilization mission in Congo (MONUSCO) کے تحت کانگو تعینات ہوئے۔ (یاد رہے یہ وہی کانگو ہے جو قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا امیر ترین ملک مانا جاتا ہے، ہیروں اور تانبے کے ذخائر سے مالامال ہے۔ جہاں امریکی کمپنیاں دن رات ہاتھ صاف کرنے میں مشغول ہیں) انھوں نے بتایا کہ وہاں کے عوام جب مشتعل ہوکر ورکرز، دفاتر یا فوج کی گاڑیوں پر حملہ آور ہوتے تو کھانے پینے کا سامان اور تیار کھانے کے ڈبے ان کی طرف اچھال دیے جاتے، کھانا پا کر وہ پرسکون ہو جاتے اور پیٹ بھرنے لگتے۔
آج پاکستان کے حالات دیکھ کر انکی بات یاد آگئی، لگا ہم "مستقبل کا کانگو" بننے جا رہے ہیں۔ کانگو پر کچھ ریسرچ کی اور پاکستان سے تقابل کیا تو سوچا لکھ ہی ڈالوں۔ دیکھیں وطن عزیز معاشی بحران میں گھر چکا ہے، یہ بھکاری ٹولہ پٹرول کی قیمت میں مزید اضافے سے مزید مہنگائی برپا کردے گا، تاکہ عام عوام سے دو وقت کا کھانا ہی پورا نہ ہو اور وہ ایٹمی پروگرام، خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات، قومی خودداری و عزت نفس، قدرتی قومی وسائل غرض ہر شے عوام کیلئے بے معنی ہو جائے اور وہ روزی روٹی میں ہی الجھے رہیں اور ان چور لٹیروں اور انکے سرپرست اعلیٰ امریکہ کو لوٹ کھسوٹ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
جانتے ہیں امریکہ نے اقوام متحدہ کے مشن کی آڑ میں اپنی فوج وہاں کب اتاری! پہلی بار اسکی بیلجیم کی آزادی کے چھ سال بعد 1966 میں غالباً 1971 تک اور دوسری بار 2003 میں تو امریکہ آیا اور وہیں رہ گیا، وہ مارشل لاء اور سول وار کے بعد کا کانگو تھا جو پوری طرح دیوالیہ ہو چکا تھا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے، مارشل لا طرز کی حکومت جو عوامی ووٹوں کے بغیر ہی بنی ملک پر نافذ کر دی گئی ہے جو حالات ہیں، صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو سول وار کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور دیوالیہ ہونے کے بھی ہم قریب تر ہیں، جسکی وجوہات ایک الگ بحث ہے۔
خیر تب IMF اور World bank نے کانگو پر احسان کیا کہ اسکے قدرتی وسائل کے زخائر کو گروی رکھ کر اسے قرض دیا تاکہ معیشت سنبھلے، مہنگائی کم ہو، عوام غربت کی چکی سے باہر نکلیں، ممکنہ طور پر پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کی اگلی قسط کی لیے اپنی ایٹمی تنصیبات، ریکوڈک، گوادر سب کچھ امریکہ کو گروی رکھوانا پڑے گا، اسی کے پیش نظر گوادر پر سی پیک کا کام مختصر اور سست رفتار کر دیا گیا ہے اور چین کے کئی ہزار ورکرز واپس لوٹ چکے ہیں۔
اچھا تو بات یہ ہے کہ 2000 کی دہائی سے اب تک اقوام متحدہ کے مشن اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے معیشت کو تو سنبھالا نہ مل سکا، نہ غربت کم ہوئی، نہ کانگو اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکا اور جب تک امریکہ وہاں ہے یقیناً کبھی ہوگا بھی نہیں ہاں البتہ امریکہ کو کانگو کے قدرتی وسائل تک کھلی رسائی ضرور مل گئی اور اب امریکہ کانگو کو شاید تبھی چھوڑے جب وہاں کے پہاڑوں میں ہیرے اور تانبے نام کی کوئی شے نہ رہے۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ کانگو جس کے ساتھ یہ سب ہوا اور ہو رہا ہے کوئی چھوٹی موٹی سی ریاست نہیں بلکہ دنیا کا گیارہواں اور افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے، قدرتی وسائل کے حساب سے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کی 790 لاکھ آبادی میں سے 310 لاکھ افراد یعنی ایک تہائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کی روزانہ آمدن سوا ڈالر سے بھی کم ہے۔
بہترین جغرافیائی پوزیشن، ساحلی پٹی، پہاڑ، دریا، بہترین کافی اگانے والا یہ ملک، تانبے کی دولت سے مالا مال، ہیروں کی سب سے زیادہ کانیں رکھنے والے یہ ملک غذائی قلت سے مرنے والے بچوں میں بھی سب سے اگے ہے، یہاں کے 43 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہے۔ وجہ کانگو اور اسکے قدرتی وسائل پر امریکی اجارہ داری اور معاشی غلامی ہے۔ پاکستان کے تھر میں غذائی کمی جو صورتحال ابھی سے آپ کے سامنے ہے۔ معاشی بدحالی اور ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے بقیہ ماندہ ذخائر اور کانیں بھی مختلف معاہدے کے تحت دوسرے ملکوں کے حوالے ہیں جیسے چند سال پہلے ہمارا ریکوڈک تھا، اور جیسے ہمارا کھیوڑہ کا کچھ حصہ ہے۔
کانگو کی زمینیں زرخیز بھی ہیں اور خوب فصلیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر کسانوں کی بدحالی کے سبب فصلوں کی پیداوار کم ہوتی ہے اور کانگو کو ہر سال بڑی مقدار میں غذائی اجناس درآمد کرنا پڑتے ہیں اور زرمبادلہ کا بڑا حصہ ادھر خرچ ہو جاتا ہے۔ مماثلتیں اور بھی ہیں مگر اللّٰہ نہ کرے ہم وہ سب دیکھیں اللّٰہ نہ کرے کہ ہم مستقبل کا کانگو بنیں۔ اللّٰہ اس وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو، اسکے اچھے لوگوں کا مددگار ہو اور غداروں اور دشمنوں کو غارت کرے آمین۔
پاکستان زندہ باد