Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nadia Tahir
  4. Hum Phir Sharminda Hain

Hum Phir Sharminda Hain

ہم پھر شرمندہ ہیں

لفظ "سیالکوٹ" ایک بار پھر گردش میں ہے، سوگواری اور شرمندگی کی علامت بن کر، اس ہجوم نما قوم کی بے حسی اور تماشہ بینی کی تصویر بن کر۔ ایک اکیلا انسان اور دوسری طرف مشتعل ہجوم، ایک طرف جان بچانے کی کوشش اور دوسری جانب بےحس درندے۔ ایک شخص کو چھت سے کھینچ کر نیچے سڑک کے بیچ لایا جا رہا ہے اور اشتعال زدہ لوگ ڈنڈے، پتھر، لاتیں، کھونسے جس کو جو میسر تھا اس پر برسا رہے ہیں۔ یہاں تلک کہ ظلم و تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے روح جسم کو چھوڑ جاتی ہے۔ مگر لوگوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، غصے کی اس آگ کو بجھانے کیلئے اب اس بے جان سے جسم پر پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ نہ پولیس پہنچتی ہے نہ ہجوم میں سے کسی کا ضمیر جاگتا ہے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بے جان جسد کی جگہ راکھ کی ڈھیری لے لیتی ہے۔

یہ واقعہ تو شرمندگی اور بے حسی کی جو مثال ہوا سو ہوا اسکے ساتھ جڑواں شرمندگی یہ کہ یہ سب ایک جم غفیر کے سامنے کھلے عام ہوا لوگ جو اس سب میں ملوث نہیں بھی تھےوہ بھی روکنے یا مزاحمت کرنے کی بجائے اس ظلم کو اپنے اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے میں مگن تھے۔ ایک انسانی جان بچانے کیلئے ان لوگوں نے کچھ نہ کیا اور بجائے اس بات پر شرمندہ ہونے کے وہ آگ میں جھلستے اس بد قسمت کے ساتھ سیلفیاں لے کر ویڈیوز بنا کر اپنا چشم دید گواہ ہونے کے ثبوت اکٹھے کرتے رہے۔

اور عین اس وقت کچھ لوگ محبت رسول صل اللہ علیہ وسلم کے نعرے بلند کرتے بھی نظر آئے۔ اس ہجوم کے اندر کس بات کی آگ تھی! آخر کیا بات بات تھی جس نے انھیں اتنا اشتعال دلایا کہ ایک انسان کی جان لے کر بھی ہر سکون نہیں ہوئے؟

کہا گیا کہ اس واقعے کا شکار سری لنکن شہری، راجکو انڈسٹریز کا جنرل مینیجر پریینتھا ڈیاواڈانا، شان مصطفیٰﷺمیں گستاخی کا مرتکب ہوا تو فیکٹری ملازمین اور اردگرد کے لوگ یہ جان کر بےقابو اور مشتعل ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ گستاخی کا کیا ثبوت ہے! عین ممکن ہے غیر ملکی ہونے کی وجہ سے وہ پوسٹر پر لکھی گئی اردو زبان سے نا آشنا ہو اور اگر اس پر گستاخ رسول ہونا ثابت تھا بھی تو اسکو سزا دینا عوام کا کام ہے یا ریاست کا! اور اگر اس ہجوم کے دلوں میں محبت رسولﷺاس قدر پیوست تھی کہ وہ کہ گستاخ رسول کو برداشت نہیں کر سکے تو کیا یہ ہجوم دروس رسولﷺ سے ناواقف ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، آگ تک لگا دی جبکہ آگ کا عذاب دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

پاکستان کے ایک غیر ملکی کا اس طرح مذہب کا نام پر پر تشدد طریقے سے مارا جانا پاکستان کیلئے حالات کو مزید ناموافق بنا دے گا۔ بین الاقوامی سطح پر اسے اسلام کی تعلیمات پر سوالیہ نشان کی طرح پرکھا جائے گا۔ اسلام پر انتہا پسندوں کا دین اور پاکستان پر انتہا پسند ملک کا ٹیگ لگا کر خوب ڈھول پیٹا جائے گا بلکہ یہ سلسلہ آج کے دی گارڈین اور دیگر اخبارات شروع بھی کر چکے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ناموس رسالت کے قوانین بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کا فاٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا اور بھی مشکل یا شاید ناممکن ہو جائے اور نتیجہ مزید معاشی بحران۔ اور سری لنکا کے سامنے بحیثیت قوم جو شرمندگی ہے وہ الگ۔ بس اللہ ہی اس ملک کا حامی و ناصر ہے۔

دوہرے نقصانات پہنچانے والا یہ سانحہ سیالکوٹ کسی اچانک رونما ہونے والے واقعے کی بجائے ایک پلانٹڈ سازش معلوم ہوتا ہے جس میں جان بوجھ کر ایک غیر ملکی کو نشانہ بنایا گیا تاکہ معاملہ بین الاقوامی توجہ حاصل کرے مگر مقام افسوس یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے جذباتی لوگ استعمال ہوئے اور جو استعمال نہیں ہوئے انھوں نے کمال بے حسی دکھائی۔ آخر کب تک یہ ہوتا رہے گا کہ بیرونی دشمن مذہب کا سہارا لیتے ہوتے لوگوں کو جذبات کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے رہیں گے۔ پاکستان کے لوگوں کو چاہیے کہ بھیڑوں کی طرح کسی کی پیچھے چلنے کی بجائے عقل سمجھ کام لیں۔ دین اسلام کے نعرے لگ کر ظلم و تشدد کے غیر اسلامی روہے اپنانا چھوڑ دیں۔ اگر کوئی گناہ کا مرتکب ہوا بھی ہے تو سزا جزا کا اختیار کا تو اللّٰہ کے پاس ہے، صرف اسی کے پاس دہنے دیں۔

اختتام پر صرف یہی کہوں گی کہ کل سیالکوٹ میں صرف ایک میت مسخ نہیں کی گئی بلکہ انسانیت کا چہرہ مسخ کیا گیا ہے، صرف ایک جسم کو آگ نہیں لگائی گئی بلکہ افسوس کے ساتھ اسلام کی امن اور برداشت کی تمام تعلیمات خاکستر کر دی گئیں۔

About Nadia Tahir

Nadia Tahir is Punjab based research scholar in chemistry. She writes on social and political issues. She tweets at @Kemiyagr

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad