Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mutruba Sheikh
  4. Zarooriyat Ya Khwahishat

Zarooriyat Ya Khwahishat

ضروریات یا خواہشات

انسانی زندگی ضروریات و خواہشات سے مزین ہے۔ یہ انسان نے خود طے کرنا ہوتا ہے کہ اسکی ضرورت کیا ہے اور خواہش کیا ہے۔ اسکی ایک مثال اپنی ذاتی زندگی میں دیکھنے کو ملی۔ اپنے ددھیال میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں سب کو زمین پر ایک دسترخوان پر ساتھ کھاتے پیتے دیکھا۔

امی چونکہ فوجی کی بیٹی ہیں تو انکو عادت تھی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر چمچے، چھری و کانٹے سے کھانے کی لیکن انہوں نے سسرال میں سسرال کا طریقہ ہی اپنایا، گو گھر میں ڈائننگ ٹیبل تھی اور کوئی سسرالی روک ٹوک نہ تھی لیکن امی سب کے ساتھ ہی کھانا کھاتی تھیں۔

لیکن جب ابو کا ٹرانسفر سکھر ہوا تو امی نے اپنے ابا کے گھر کا طریقہ اپنایا۔ ٹیبل پر ہی کھانا کھانا۔ کراکری، نیپکن کا اہتمام۔ جس کو میٹرک تک پہنچتے پہنچتے میں نے اپنی کام چوری کی وجہ سے ختم کیا کہ زیادہ برتن دھونے پڑتے ہیں کیونکہ میرے بابا کو کچن میں ملازمین کی موجودگی پسند نہیں۔ بقول انکے جب گھر کی خاتون ورکنگ لیڈی نہیں ہے صرف خاتون خانہ ہے تو اسکا فرض ہے کہ وہ کچن خود سنبھالے۔ (گو میرا بابا سے اختلاف ہے اس بات پر، اس پر پھر کبھی لکھوں گی)

دوسری عادت جو امی نے ہمیشہ روا رکھی۔ وہ ٹائلٹ پیپر کا استعمال۔ جو مجھے ہمیشہ اضافی خرچ لگتا رہا لیکن اس معاملے میں میری سنوائی نہ ہوئی اور بدستور استعمال جاری رہا۔

آجکل چونکہ گھر سے الگ ہوں۔ اسلئے گھر کو مس بھی کر رہی ہوں لیکن یہ بھی سوچ رہی ہوں، کہ ہماری ضروریات کیا ہوتی ہیں اور خواہشات کیا ہوتی ہیں۔

کل ہمارے ایک دوست ملنے آئے، فیس بک کے نہیں۔ میرے ایک پرانے دوست ہیں، تقریبا پندرہ سال پرانی ہماری دوستی ہے، جب بھی زندگی میں اداس وقت آتا ہے، میں ننھیال یعنی گلیات و دارالحکومت کا رخ کرتی ہوں۔

پندرہ سال پہلے ایک اداس لمحے میں گلیات میں چلتے پھرتے ہماری دوستی ہوئی تھی، جو ابھی تک قائم ہے۔ پہلی نظر میں دوست بنانے کا فیصلہ کرتی ہوں۔ اور جو مجھ جیسے انسان ہوتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں۔ کہ ہاں بھئی انسان اچھی ہے، دوستی قبول کرو۔

اس دورے پر مصروفیات کے باعث ہماری ملاقات میں تاخیر ہوئی۔ کل جب وہ پہنچے تو لمبی واک اور لمبی ڈرائیو کے دوران انہوں نے میری گردن اور ہاتھوں پر گرمی دانے دیکھے، کہنے لگے، یار گرمی میں کیوں رہ رہی ہو، میرے گھر چلو۔ تم کو سوٹ نہیں کرتی اسلام آباد کی گرمی۔۔

میں نے کہا۔ نہیں اے سی کے بغیر گزارا ہے۔ وہ تو صرف آسائش ہے۔ زندگی کو سیکھنے دو، تم ہی تو کہتے ہو کہ زندگی کو سیریس نہیں لیا ہے اب سیریس لینے دو۔ چپ رہے۔

پھر کہنے لگے۔ چلو برتھڈے گفٹ لے لو۔ موسم بدلے گا، کپڑوں کی نئی کلیکشن آ گئی ہے۔

میں نے پھر منع کیا، کہ کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کپڑے بہت ہیں۔ ہاں منرل واٹر، سگریٹ، ٹائلٹ پیپر اور چند بہت ہی ضروری اشیاء تمھارے ہی کارڈ سے بطور گفٹ لینی ہے۔ کیونکہ بیس دن گزر چکے ہیں۔ گھر سے جو لائی تھی سب ختم شد ہے۔ بابا نہیں ہیں جو پچھلے ڈیڑھ سال کی بے روزگاری میں بھی کھانے سمیت دوسری ضروریات پوری کر رہے تھے۔

اس پر ہم لوگوں نے پہلے قہقہے لگائے پھر ڈسکشن کی کہ ضرورت و خواہش میں فرق جان کر زندگی بہتر گزاری جا سکتی ہے۔ نہ صرف اپنی انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی و قومی زندگی۔ جیسے کہ کل اجتماعی طور پر ہم کو تلخ تجربہ ہوا۔

ایک ایسا ملک جس کے سب سے بڑے ادارے کو بہت پروفیشنل اور اپنے فنون کا ماہر سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جو ایٹمی قوت ہے لیکن اسکے پاس ایسے ہیلی کاپٹر اور مشینری نہیں ہے جو قدرتی آفات و حادثات کی صورت میں انسانی جانوں کو بچا سکے۔

ایسے ایٹم بم، ایسے جدید ہتھیاروں، ایسے تربیت یافتہ افراد کا کیا فائدہ جو ضرورت پڑنے پر کام نہ آسکیں۔ ہماری سماجی ضرورت کیا ہے اور ہم کس شے کا پرچار کرتے ہیں، یہ سوچنا ہوگا۔

وطن عزیز میں دفاعی بجٹ کو ہر حال میں کم کرنے کی ضرورت ہے، دور دراز علاقوں میں کئی کئی میل پیدل چل کر یا ٹرالیوں، ڈولیوں پر سفر کرکے بچے اسکول جاتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بھئی۔۔ بچے سیاحوں کی گاڑیوں پر یا پبلک وینز پر لٹک جاتے ہیں۔ اکثریت کے پاس پبلک وین کے کرائے کے پیسے نہیں ہوتے اور ملک کے کرتا دھرتا اٹلی کے ٹائلز اور بلب اپنے گھروں میں لگاتے ہیں۔۔ بیرون ملک سے سجاوٹ کی اشیاء منگوانا خواہش ہے، ضرورت نہیں۔

یہ ملک چند افراد کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے نہیں قائم کیا گیا تھا بلکہ انسان کے بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے ملک بھر میں ابھی تک پینے کا صاف پانی میسر ہونا تو دور کی بات، ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہماری آنے والی نسلیں کسی آفت یا حادثے کی صورت میں محفوظ نہیں ہیں۔

خدا ہم کو وہ شعور عطا کرے۔ جو ہم کو مزید بےوقوف بننے سے روک دے۔

Check Also

Sulag Raha Hai Mera Shehar, Jal Rahi Hai Hawa

By Muhammad Salahuddin