بلوچ نوجوانوں کے نام

جعفر ایکسپریس والے واقعے کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ بلوچ نوجوانوں سے عقل، منطق اور حقائق کی بنیاد پر مکالمہ کیا جائے۔ وہ نوجوان جو کچھ مافیاوں کے ذریعے سازش کے تحت گمراہ کئے جا رہے ہیں۔ جنہیں صدیوں پرانے سرداری نظام میں محکوم اور مظلوم رکھنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ جنہیں ٹیکنالوجی اور ماڈرنائزیشن کی صدی میں امن، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر سے دور رکھا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ نظریاتی گمراہیوں اور فکری مغالطوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
یہ سب کرنے والے وہ ہیں جو پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار ہیں، ان سے لمبے مال لیتے ہیں، خود ارب پتی ہوجاتے ہیں مگر بلوچ نوجوانوں کو غربت، جہالت، تباہی او رموت تک لے جاتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو صدیو ں سے ان کے سروں پر سرداری نظام کی صورت میں مسلط ہیں جبکہ دنیا پچھلی صدی میں ہی اس نظام کو متروک کر چکی، دنیا بھر کے نوجوان اب اعلیٰ ڈگریوں کی طرف جا رہے ہیں، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں تو کیا بلوچ نوجوانوں کو ان بھیڑیوں سے خبردار کرنا ضروری نہیں جو ان کا مستقبل کھا رہے ہیں، انہیں کمپیوٹر کی بجائے بندوقیں، مٹی میں رُلے ہوئے چہروں کی موت دے رہے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ بی ایل اے، بلوچوں کے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہے اور اس کی جدوجہد سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حقوق کیا ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے سے بھی پہلے ایک بچے کا حق یہ ہے کہ اس کی ماں زندہ رہے، اس کے پاس ڈاکٹر اور ہسپتال کی سہولت ہو، وہ اسے پیدا کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر نہ چلی جائے اوراس کے بعد اس کی اپنی صحت۔ وہ پولیو سمیت تمام متعدی امراض سے محفوظ رہے۔ دوسرے اس بچے کو ایسی تعلیم ملے جو اسے معاشرے میں عزت اور وقار والا مقام دے۔ اس کی کردار سازی ہو۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے نوجوان کے سامنے وہ کھڑا ہو تو اس سے مکالمہ کر سکے۔ اس تعلیم کے ذریعے وہ ایسا روزگار حاصل کر سکے جو اس کی خاندان کی ضروریات کو پورا کرسکے۔
ہر نوجوان کا حق ہے کہ وہ ایک پرامن معاشرے میں رہے۔ پھر اسے شادی کرنے اور اپنی نسل کو بڑھانے کا حق حاصل ہے مگر کیا یہ سب اس صورت میں ہوسکتا ہے جب اسے نفرت اور تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا جائے یعنی بندوق دے کر پہاڑوں پرکیونکہ اس کے ذریعے کچھ مافیاز بھارت جیسے دشمنوں سے فنڈنگ لیتے ہیں اوراس کے ذریعے قبائلی روایات کے نام پر کچھ چالاک لوگ اپنی سرداری قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہاںِ ، وہی سردار جن کے اپنے بچے آکسفورڈ اور ہارورڈ سے پڑھ کے آتے ہیں اور اس نظام کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہاں سے پڑھ کے، وہاں سے آ کے بھی وہی بن جاتے ہیں یعنی نسل در نسل ظالم سردار، جن کی نجی جیلیں تک مشہور ہیں۔
یہ بھی پروپیگنڈہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل لوٹے جا رہے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان میں سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے لائے جا رہے ہیں جو اسے پاکستان کا دوبئی بنا سکتے ہیں۔ جو اس کے لوگوں کو نوکریوں او رکاروباروں کی وہ انتہا دے سکتے ہیں کہ تھوڑاسا محنتی اور تھوڑا سا پڑھا لکھا بھی کروڑ پتی ہوسکتا ہے۔ میں آپ کو پورے یقین، اعتماد سے بتاتاہوں کہ بی ایل اے یہ نہیں ہونے دینا چاہتی۔ وہ نہیں چاہتی کہ ریکوڈک کے ذخائر سے پہلے بلوچستان اور پھر پاکستان ترقی کرے۔ وہ نہیں چاہتی کہ بلوچوں کو روزگار کے ایسے مواقعے ملیں کہ وہ سرداروں کی جوتیاں کھانے ہی نہیں بلکہ وہ جوتیاں سیدھی کرنے تک سے انکار کر دیں سو یہاں بی ایل اے اورسرداروں کا بلوچستان کے حقوق کے نام پرایک فریبی اتحاد ہوجاتا ہے جو اصل میں ان کے گندے اور گھٹیا مفادات کا اتحاد ہے۔
ان کا مفاد یہ ہے کہ بلوچی نوجوان ان کا ذہنی اورجسمانی غلام رہے اور جو ان کی غلامی سے نکلنے لگتا ہے یہ ظالم اوروحشی اسے جان سے مار دیتے ہیں اور الزام ان پر لگا دیتے ہیں جو انہیں علم، تعمیر، ترقی اور شعوردے رہے ہیں۔ بلوچستان کو اپنے محل وقوع ہی نہیں بلکہ حکومت اور فوج کے اتحاد سے ایسا موقع ملا ہے کہ وہ اپنی صدیوں کی محرومیوں کا ازالہ کر سکتا ہے اور یہ بلوچ نوجوانوں کے دشمنوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ بلوچ نوجوان اپنے ان سرداروں کو دیکھے کہ یہ اسلام آباد کو بلیک میل کرکے اقتدار لینے کے لئے قوم پرست بن جاتے ہیں اور جب انہیں اقتدار مل جاتا ہے تو وفاق پرست، یہ سب ان کے مفادات کا کھیل ہے کہ جب انہیں رائلٹیاں چاہئیے ہوتی ہیں تو یہ اسلام آباد پر چڑھ جاتے ہیں اور جب انہیں بھارت سے مال کھینچنا ہوتا ہے تو پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں، آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔
اگر کوئی بلوچ نوجوانوں کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کوئی الگ دیش بنا سکتے ہیں اوراس کے ذریعے ان پر وسائل یا حقوق نام کی کسی شے کی بارش ہوسکتی ہے تو وہ انہیں گمراہ کرتا ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے بنگالیوں کو بھی یہی بتایا گیا تھا مگر پھر انہیں بھارت کی ایما پر گمراہ کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کو اسی کی فوج نے خاندان کے ساتھ گولیوں سے بھون کے رکھ دیا تھا۔ اس کی ملک سے باہر دو بیٹیوں میں سے ایک حسینہ واجد ابھی حال ہی میں جس انجام سے دوچار ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح کرد کئی کروڑ ہونے اور تین ملکوں میں پھیلے ہونے کے باوجود الگ ریاست نہیں بنا سکے۔
بھارت نے سکھوں کے ساتھ جو کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ریاستیں فتنہ اور فساد برپا کرنے والوں سے کیا سلوک کرتی ہیں اس کے لئے وہ برطانیہ میں ماضی قریب میں ہونے والے ہنگاموں کے ذمے داروں سے نمٹنے کودیکھ سکتے ہیں۔ اب دہشت گردی حقوق کے حصول کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ ریاستی اور عالمی نظام میں یہ قابل قبول ہے۔ آپ اپنے حقوق تعلیم اورترقی کے ذریعے ہی لے سکتے ہیں جس کی گارنٹی کوئی بی ایل اے یا کوئی سردار نہیں دے سکتا مگر جائز، قانونی، جمہوری ہی ریاست دے سکتی ہے۔
بلوچی نوجوانوں کو اس سیاسی فتنے سے بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو محض اپنے اقتدار کے لئے پاکستان کی ریاست اور فوج کے خلاف سرگرم عمل ہے اور وہ اس سے پوچھ سکتے ہیں کہ پچھلے دو تین برس سے ان کی جو پالیسی ہے وہ پچھلے پورے عشرے میں کیوں نہیں رہی۔ یہ وہ گروہ ہے جو کہتا ہے کہ اسے اقتدار نہ ملے تو چاہے پاکستان پر ایٹم بم پھینک دیا جائے۔ یہ سب بلوچی نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق اور دلوں میں نفرت دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچ نوجوان اپنا مفاد دیکھے، اپنی تعلیم دیکھے، اپنی دھرتی پر انفراسٹرکچر دیکھے، اپنا روزگار اور اپنی نسلوں کی خوشحالی دیکھے۔ قوم پرستی کے نام پر کچھ چالاک اور مکار اسے بدحالی کی زندگی اور بدترین موت دینا چاہتے ہیں جیسے یہ دہشت گرد کتے کی موت مرے۔