Kahan Tak Bhagte
کہاں تک بھاگتے

احمد نورانی کی رپورٹ نے آخر کار بلاسفیمی بزنس گروپ کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے۔ تین بڑے کردار سامنے آئے ہیں۔
ہائی کورٹ سے جسٹس چوہدری عبدالعزیز: یہ صاحب بطور وکیل رمشا مسیح کیس میں بھی ہیرو گیری فرماتے تھے۔
ہائی کورٹ بار سے راو عبدالرحیم ایڈوکیٹ: عمر بھر اس نے الزام کی کمائی سے گھر چلایا۔
ایف آئی اے سے مدثر شاہ: ہمارے دوست ابوبکر کو جب توہین رسالت کے کیس میں ناحق اٹھایا گیا تب ہمارا واسطہ اس سے پڑا تھا۔
ایف آئی ار میں ابو بکر کو ایک یوٹیوب چینل کا سرغنہ کہا گیا۔ تین دن کے مسلسل تشدد کے بعد مدثر شاہ کو بھی اندازہ ہوگیا کہ کہانی میں دم نہ ہے۔
تب یہ شخص ابوبکرکے میسنجر میں بہت دور تک گھسا، ایک سطر اٹھا کر لایا اور کہا، کیس تو بھئی بہت پکا ہے۔
ہم نے بہت تسلی سے کہا، ایک تو میسج بے ضرر سا ہے دوسرا یہ پرائیویٹ چیٹ ہے۔
تنک کر بولا، سوچو اگر لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ چل گیا تو؟ ان کو بتا سکو گے کہ پبلک گفتگو اور پرائیویٹ چیٹ میں کیا فرق ہوتا ہے؟
دوستوں سے میں نے کہا، اس شخص کے ساتھ کسی بھی بحث میں الجھنا ابوبکر کی مشکل میں اضافہ کر سکتا ہے۔ سو خاموش!
عدالت میں پیشی ہوئی تو ان نادر نمونوں کے پاس پیش کرنے کے لیے میاں محمد بخش، بھلے شاہ اور غالباََ میر انیس کے اشعار کے سوا کچھ نہیں تھا۔
خوش قسمتی سے کیس جسٹس بابر ستار کے پاس لگا ہوا تھا۔ انہوں نے سر پکڑ کے پوچھ لیا، تم لوگ محمد بخش کو جانتے بھی ہو؟
جیسے تیسے ابوبکر کو رہائی نصیب ہوگئی۔ وہ آیا تو جیل سے کچھ قیدیوں کی کہانیاں بھی ساتھ لایا۔ وہ ان کے لیے فکر مند تھا۔
ایک شام اس نے مجھے اور منان ایڈوکیٹ کو تفصیل سے بتایا کہ ایف آئی اے کے کچھ اہلکار، ہائیکورٹ کے کچھ وکیل اور کچھ عدالتی کارندے باقاعدہ بلاسفیمی کا بزنس کر رہے ہیں۔
وٹس ایپ پر پیڈ لڑکیوں کے ذریعے لڑکوں کو ہتک آمیز مواد کے جال میں پھنساتے ہیں اور پھر جیل تک پہنچا دیتے ہیں۔
ابوبکر کی باتیں آسانی سے ہضم نہیں ہو رہی تھیں۔ ہر بات اس سے بار بار پوچھ کر سمجھنا پڑا کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے۔
میں نے وائس آف امریکا کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کیا۔ کہانی بتائی تو چودہ طبق ان کے بھی روشن ہو گئے۔
مگر اس کہانی کو رپورٹ کیسے کیا جائے؟ اس کا کوئی مناسب جواب نہ مل سکا۔ سو بات آئی گئی ہوگئی۔
میں نے اعزاز سید کو وٹس ایپ پر ایک میسج کیا۔ انہوں نے بہت مثبت جواب دیا، مگر ملاقات نہ ہوسکی۔ سوچا، ان کو بھی رپورٹ پر کیسے آمادہ کریں گے؟
اس بیچ فیس بک لسٹ میں موجود عمیر چیمہ نامی ایک دوست نے رابطہ کیا۔ یہ دوست خود مذہبی رجحانات رکھتے ہیں۔
انہوں نے بہت درد مندی سے بتایا کہ اس وقت اسلام آباد میں بلاسفیمی کا ایک پورا کاروبار چل رہا ہے۔ تقریباََ وہی کہانی دہرائی جو ابوبکر بہت تفصیل سے سنا چکے تھے۔
ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد احمد نورانی کی رپورٹ 'بلاسفیمی بزنس گروپ' سامنے آگئی، جو انہی کی ویب سائٹ فیکٹ فوکس پر شائع ہوئی تھی۔
اس رپورٹ میں نہ صرف یہ کہ اس گھناونے کاروبار کی تفصیل موجود تھی بلکہ کاروبار کے مرکزی چہروں پر سے نقاب بھی اٹھایا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس بزنس میں تقریباََ چار سو سے زیادہ لوگوں کے گرد توہین کا جال پھیلایا گیا۔
بعد میں آنے والی ایک اور رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کاروبار میں کیسے عبداللہ شاہ نامی نوجوان پر توہین کا الزام لگایا گیا اور پھر کیسے بنی گالا سے اس کی سر کٹی لاش برامد ہوئی۔
بعد ازاں عبداالہ شاہ کے والد عامر شاہ پر کیسے توہین کا الزام لگایا گیا اور تینوں کرداروں نے مل کر عامر شاہ کو کیسے اس کیس سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا۔
احمد نورانی کی یہ رپورٹ منظر نامہ بدلنے جا رہی ہے۔
ابتدائی طور پر جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے 'ذاتی وجوہات' کی بنا پر اپنا استعفی پیش کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ناموس رسالت کی جنگ لڑنے والے کی بورڈ مجاہدین کو سوچنا چاہیے کہ جانے انجانے میں وہ کس کاروبار کا حصہ بنے ہوئے تھے۔