Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mutruba Sheikh/
  4. Kankhajoore Wali Dulhan Aur Ameer Jan

Kankhajoore Wali Dulhan Aur Ameer Jan

کنکھجورے والی دلہن اور امیر جان

نیر مسعود نے اپنے افسانے "بائی کے ماتم دار" میں ایک دلہن کا قصہ لکھا ہے جو رخصت ہو کر ڈولی میں سوار ہو گئی، لیکن جب بارات مع ڈولی سسرال پہنچی تو دلہن مر چکی تھی، آہ و بکا کے درمیان دیکھا گیا، کہ دلہن کی پنڈلی پر ایک عدد پرانا کنکھجورا چمٹا ہوا ہے، پرانے کنکھجورے نے اپنے آنکڑے نما زہریلے پنجے دلہن کی پنڈلی میں گاڑ دیے تھے مظلوم دلہن بار حیا سے چیخ تو دور کی بات، کہ چیختی تو بے حیا عورتیں ہیں، وہ تو معصوم باحیا آہ بھی نہ کر سکی اور تکلیف برداشت کرتے کرتے اس کے ہونٹ اپنے ہی دانتوں تلے کچلے گئے اور زہر پھیل جانے کے باعث وہ مر گئی۔

سسرال والوں نے گہنے پاتوں سمیت دفن کر دیا۔

اس قصے کے بعد افسانے میں نیر مسعود نے اپنے قلم کی خالصتاً ادبی جولانیاں دکھائی ہیں یقیناً ان کے دور میں قاری باشعور تھے، جو ادبی بیانیے میں گپت اشارے سمجھ گئے ہوں گے۔

آج کل تو اظہار جتنا باشعور ہے شاید اتنا ہی پیچیدہ ہے یا پھر ہمارے قارئین کوئی مثبت و بھلائی کا اشارہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

فدویہ کو کنکھجورے والی دلہن "محترم شمس الرحمن فاروقی" کے ناول "قبض زمان" میں امیر جان بائی کے کردار سے یاد آئی، یہ ناول پچھلے دسمبر میں کراچی بین الاقوامی کتب میلے سے خریدا تھا، لیکن پڑھنے کی نوبت نہ آرہی تھی، کہ سوشل میڈیا کا کنکھجورا مطالعے کی راہ میں اپنے پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔

ایک دلہن کی باتھ ٹب میں موجود نعش پر جب کئی اقسام کے نظریاتی کنکھجورے و جواز سوشل میڈیا پر رینگنے لگے تو گھبرا کر فون ایک طرف رکھا اور بک شیلف کی طرف دوڑی، پہلے مشکوتہ شریف سے باب النکاح کا باب ایک بار پھر پڑھا۔

تسلی ہوئی کہ دین میں تمام حقوق ودیعت کیے گئے ہیں۔ شیلف کے دوسرے کونے سے ناول قبض زمان ہاتھ آیا لیکن ناول کے صفحات پر بھی شادی کا کنکھجورا براجمان تھا۔

امیر جان جدی پشتی بائی نہ تھی بلکہ شادی کے نام پر دھوکہ دے کر کوٹھے پر پہنچا دی گئی تھی، خاندانی لڑکی جو خوبصورت اور گھریلو تھی، شادی نہ ہوتی تھی، عمر نکلی جاتی تھی، رشتے دار و آس پاس کے اعزاء نے شادی نہ ہونے سے متعلق سوالات کرکے والدین کا جینا حرام کیا ہوا تھا، بات دور تلک پھیلی کہ ایک کنیا کی شادی نہ ہوتی ہے، دور دراز کے علاقے سے ایک ڈھونگی سن گن لے کر پہنچا، مصنوعی شرافت دکھائی، والدین کو شیشے میں اتار، لڑکی رخصت کروا لی، چند دن خود داد عیش لئے اور پھر کوٹھے پر چند سکوں کے عوض اپنی دلہن بیچ دی۔

ناں ناں تاسف نہ کیجئے، ارے مثبت پہلو دیکھئے، بیچ دی۔ قتل تو نہ کی، ذبح کر دیتا، پنکھے سے ٹانگ دیتا یا پھر سر پر ہاون دستا مار کر کسی پانی بھرے ناند میں جان لیوا غوطے دیتا تو ظالم کہلاتا۔

اس نے تو عورت زندہ رکھی اور اپنے جیسے دوسرے مردوں کے لئے دل بستگی کا سامان کیا۔ عورت تو پیدا ہی دل بہلانے کے لئے کی گئی ہے۔

عورت کے بال دیکھنے سے لوگوں کو گناہ بے لذت لگ جاتا ہے اس لیے کرہ ارض پر موجود ایک ملک ایران کی عورتیں دھڑا دھڑ اپنے بال کاٹ رہی ہیں، تازہ خبر یہ آئی ہے کہ فرانس کی عورتوں نے بھی اظہار یک جہتی کے لئے اپنے بال کاٹنے شروع کر دیے ہیں۔

جیو فرانسیسی عورتو!

کاش ہمارے ملک کی عورتوں کو بھی اتنا شعور آ جائے، کہ وہ خون ناحق پر احتجاج کر سکیں، ہماری کچھ بہنیں وہی گھسا پٹا بیانیہ لکھ رہی ہیں، کہ عورتیں امیر شوہر ڈھونڈتی ہیں اور حیرت ہوتی ہے یہ وہی خواتین لکھ رہی ہیں جو مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ ہیں، اور معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں، کچھ تو شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، شاید ہماری محترم صحافی بہنیں بھول گئیں ہیں کہ اسی خطے میں تقریباً سو برس جہیز کم ہونے پر دلہنیں جلائی جاتی رہی ہیں، ہر تیسرے دن اخبار میں خبر ہوتی تھی۔ چولہے پھٹنے سے گھر کی بہویں جل جاتی تھیں، لیکن دوسرے لوگ محفوظ رہتے تھے۔

ایک بار خبر تھی، جلانے سے پہلے ریشمی کپڑے پہنا دیے تا کہ شعلے جلدی بھسم کر دیں۔ کئی دن خوف طاری رہا تھا، سوچتی تھی ریشمی کپڑے کبھی نہیں بنانے چاہیے۔

خدا خدا کر کے جلانے والے حادثات ختم ہوئے تو نت نئے طریقوں سے بہووں کو مارا جانے لگا ہے، کرنٹ لگنے کے واقعات اور غیرت کے نام پر قتل کی کتنی ہی خبریں ہمارے اخبارات کی زینت ہوتی ہیں۔

پچھلے اڑھائی برس میں بیرون ملک مقیم کتنی لڑکیاں شادی کرنے اس ملک میں آئیں اور قتل ہوئیں، شادی کے نام پر ملک سے باہر گئیں، قتل کی گئیں یا بیچ دی گئیں۔

ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ اکا دکا واقعات کو بنیاد بنا کر ہم عورت کو مظلوم نہیں بنائیں۔

چلیں مظلوم نہیں بناتے، لیکن خدا کی کتاب میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف بتایا گیا ہے۔

ہم خون ناحق پر بحث کرنا شروع ہو جاتے ہیں، یہ کہنے لگتے ہیں کہ آج کی عورت خود اعتمادی کا شکار ہے، آج کی عورت اپنے برابر کا رشتہ دیکھتی ہے۔

کیوں نہ دیکھے برابر کا رشتہ؟ کیا دین میں"کفو" رائج نہیں ہے؟ کیا دینی مساوات کے کلیے صرف مرد کے لئے ہیں، عورت کے لئے نہیں؟

ابھی تو صرف چند ہزار عورتوں نے اپنے حق میں آواز اٹھائی ہے، ابھی تو صرف چند عورتوں نے کفو کو سمجھا ہے اس پر اتنا ہنگامہ؟

جب کہ ہم سب لوگ اپنے دین کو انسانیت کے لئے سب سے بہتر دین مانتے ہیں معذرت کے ساتھ نہ ہم انسانیت کے تقاضوں کو، نہ ہی دینی و دنیاوی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔

شادی اہم دینی و سماجی امر ہے لیکن بدقسمتی سے مرد ہمارے یہاں باندی پلس زوجہ کا متقاضی ہے، وہ پڑھی لکھی باشعور، فیشن ایبل، نک سک سے درست عورت کو چاہتا بھی ہے لیکن اپنی پسند کے مطابق۔

اور عورت صرف معاشی طور سے اس رشتے کو دیکھتی ہے، باہمی محبت و احترام شاید اس رشتے میں کبھی تھے ہی نہیں جب ہی مرد نکاح جیسے مقدس بندھن کے باوجود کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھ جاتا تھا اور دور جدید میں گرل فرینڈ رکھنا چاہتا ہے۔

اور عورت چادر اور چار دیواری کے تحفظ کی خاطر ہلکان ہوتی رہتی ہے۔ جو عورت اس جبریت سے علحدہ ہونا چاہتی ہے وہ مار دی جاتی ہے۔ یا پھر اکیلے زندگی گزارتی ہے۔

ایک باشعور اور معاشی طور پر مضبوط عورت کو ایسا شوہر نہیں چاہیے جو پندرہ سو برس پرانے دور جاہلیت کی حاکمیت کے طریقوں پر عمل پیرا ہو اسی لئے یہ کشمکش جنم لے رہی ہے۔ اور شادی کا ادارہ دن بہ دن کمزور ہو رہا ہے۔

جو کہ ظاہر ہے درست نہیں ہے۔ اس کے لئے بہترین حل یہی ہے کہ ازدواجی رشتے میں بندھنے سے پہلے فریقین کو تربیتی کورس کروایا جائے۔

Check Also

Aik Mulaqat Ka Sawal Hai

By Najam Wali Khan