1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. Urdu Sahafat Ke 75 Saal

Urdu Sahafat Ke 75 Saal

اردو صحافت کے 75 سال

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کی تخلیق اور ارتقاء میں صحافت اور رپورٹنگ کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاملات مزہبی ہوں دینی ہوں یا پھر سیاسی۔ ہر ایک رپورٹنگ کے مرہون منت رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں اچھی اور بری رپورٹنگ یا یوں کہہ لیں کہ سچی اور جھوٹی رپورٹنگ نے بھی اپنا کمال خوب دکھایا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تخلیق بہترین رپورٹنگ اور صحافت کے مرہون منت ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہیں اگر آج یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تباہی اور بربادی کی ذمہ دار بھی آج کی بدترین رپورٹنگ اور صحافت ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔

صحافت کے لیے جواں مردی اولوالعزمی اور بلند حوصلگی نمایاں شرائط ہیں۔ دبو اور ڈرپوک لوگوں کا صحافت کے میدان میں نہ تو کوئی مرتبہ ہے اور نہ ہی کوئی مقام لیکن تباہ کن کردار ضرور موجود ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اردو صحافت محض خوشامد پرستی، سیاست بازی اور سستی شہرت پر مشتمل ہے۔ آج کی صحافت میں پیسہ پیسہ پیسہ کا راگ پوری شدت کے ساتھ الاپا جارہا ہے۔ آج مشہور و معروف صحافیوں کے اثاثے اس بات کے گواہ ہیں کہ حق گوئی اور صداقت کا اس وقت کی اردو صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں رہا۔ جس کا پلڑا بھاری دیکھا صحافت اور صحافی دونوں اس کے گھر کی باندی بن گئی۔

آج کے اخبارات اور میڈیا مالکان نے ان میڈیمز کو دکان بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج کی صحافت کا لوگوں کی زندگیوں پر پر پڑنے والا اثر کہیں نہایت شرمناک ہے تو کہیں فسادی۔ آج جسے اپنے کاروباری روابط بڑھانے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانوں کے ساتھ سیاست، حیثیت اور اختیار کا مقابلہ کرنا ہے وہ اخبارات اور ٹی وی کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔ اسے قوم کے مفادات سے، قوم کی بھلائی اور بہتری کے کاموں سے کوئی غرض نہیں جس کے لیے اردو اخبارات کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جسکے کے لیئے تھوڑا سا تاریخی حوالہ دینا بیحد ضروری ہے۔

اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار جامِ جہاں نما، تھا جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔

اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ اکثر نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے 77 سالہ بزرگ پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے 16 ستمبر 1857کو تحریک آزادی کی سچی اور بیباک رپورٹنگ کے جرم میں توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار "اخبار دہلی" کے نام سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ یوں انہیں پہلا شہید صحافت کہا جا سکتا ہے۔

اب ہم پاکستان سے باہر یورپ میں اردو صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس وقت تک عام طور پر فرانس میں ہونے والی اردو صحافت خصوصا اور پاکستان میں عموما 40% رپورٹنگ پر مبنی ہے جبکہ 5% معلومات پر 3% تعلیم و تربیت پر جبکہ 42% سیاسی شعبدہ بازیوں پر 10% اشتہاری مہمات پر مشتمل ہے۔ آج صحافت کسی کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور یہی آج سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہے اس کے لیئے اس کے پہلے سچے صحافی مولوی باقر شہید کی روح جانے کتنی بار پرواز کرتی ہوگی۔

فرانس میں ہم اردو ٹی وی چینل کے لیئے سال ہا سال سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ کام تب تک نہیں ہوسکتے جب تک یہاں کے مخیر حضرات اس میں دلچسپی نہ لیں اور اس میں مالی معاونت نہ کریں۔ اردو کیلئے یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام سے ایک نوجوان شاعر وقار بخشی نے کام کیا اور اس پر مختلف طرح کا مواد بھی پیش کیا گیا لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ اسے ابھی تک باقاعدہ ٹی وی چینل کی صورت پر نہیں لا سکے اور ویب ٹی وی کی حیثیت سے ہی کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے لیئے انہیں مطلوبہ مالی معاونت حاصل نہیں ہے۔

ہم لوگ اپنی ایمبیسی سے بھی ہمیشہ اس بات کی درخواست کرتے رہتے ہیں انہیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہاں پر اردو ٹی وی چینل اور ریڈیو کی بے حد ضرورت ہے۔ لیکن اس مطالبے کیساتھ ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ باقی شعبوں میں جس طرح سے اردو صحافت کو استعمال کیا گیا اور کاروباری بنا دیا گیا اور اسے پیسہ کمانے اور اثر رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا گیا اگر یہاں بھی اسی طرح سے ہونا ہے اور وہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر نہ ہونا ہی بہتر ہے کم از کم یہ تو نہیں کہ ہمارے پاس میڈیم موجود ہے اور کچھ کر نہیں رہے۔

ریڈیو کی طرف دیکھیں تو یہ آج بھی بڑا مضبوط میڈیم ہے۔ لیکن ہمیں خود یہاں 25 سال ہو گئے ہیں اس پر بات کرتے ہوئے۔ ہم لوگ اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ اسکی سکیورٹی گارنٹی وغیرہ جمع کروانا اور باقی جو سارا طریقہ کار اس کو پورا کرسکیں تو جو پورا کرسکتے ہیں وہ سوچتے رہتے ہیں کہ اچھا جی چلیں یہ بھی کام کریں گے ان کے لئے یہ چیز ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہاں پر کتاب پڑھنا جب ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں پر اپنی زبان سیکھنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں اپنے بچوں کے لیئے کوئی کلچرل پروگرام ادب و صحافت کے حوالے سے ہو، ہماری جو بھی حمایت کی بات ہو وہ لوگ اس میں حصہ لینا، اپنے گھر سے خود شامل ہونا پسند کرتے ہیں نہ اپنے گھر سے خواتین کو بچوں کو لانا پسند کرتے ہیں۔

جب وہ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے تو پھر اردو صحافت صرف اور صرف کاروباری نظریے کے ساتھ کہ میں کیا لگاؤں گا اور مجھے کیا ملے گا، کس کو اوپر اٹھانا ہے کس کو نیچے گرانا ہے صرف اور صرف یہی ایک نظریہ رہ جاتا ہے اور یہ نظریہ صرف تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کے لیئے صحافت کی جدوجہد میں تہذیب، اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی معاشرت کو بچانے کے لئے، حق بات کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لیئے آپ کی سوچ نہیں ہوگی آپ کی اپروچ نہیں ہوگی اس وقت تک صحافت محض مذاق ہے اور یہی سبب ہے کہ ان پچھتر سالوں میں اگر آپ دیکھیں تو ہماری صحافت نیچے سے اوپر جانے کے بجائے اوپر سے نیچے کی طرف ہی آئی ہے۔

فرانس میں اردورپوٹنگ کی 90% صحافت کا معیار نوٹ کیجیئے کہ فلاں فلاں کے ساتھ آج اپنے بیٹے کی سالگرہ کی خوشی میں کھانا کھانے آیا ہے۔ فلاں فلاں کے ساتھ آج دوستوں سے ملاقات کر رہا ہے۔ فلاں شخص عمرہ کرکے آئے لہذا اس کا دوست اس کو لینے کے لئے آیا ہے۔ فلاں سیر کرنے جا رہا ہے۔ فلاں سیر سے واپس آ رہا ہے۔ جہاں پر رپورٹنگ کا یہ معیار ہوگا۔ فلاں نے آج اس ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا یا کھلایا۔ اور یہ سب فلاں فلاں نہ تو کوئی پرسنالٹی ہیں۔ نہ ہی کوئی اداکار ہیں نہ ہی کوئی اور کمیونٹی کے فعال کردار ہیں۔

بس جو جس نام نہاد صحافی کی جیب میں نوٹ رکھ دیگا وہ اپنی فی تصویر ادائیگی سے صحافتی خدمات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یا پھر کرائے کے صحافی جو پاکستان اور باہر ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور اپنا قلم کسی بھی سیاسی تنظیم کو کرائے پر دے دیتے ہیں۔ وہ اس سیاسی تنظیم کے سارے کالے کوے ہر قیمت پر سفید کرنے کے لئے اپنا دین ایمان ضمیر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔

تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کا ذہنی معیار کیا ہوگا، اخلاقی درجہ کیا ہوگا۔ یعنی اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو پاکستان میں مجموعی طور پر اردو صحافت خاص طور پر ان گزرے بیس سالوں میں بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اور ٹی وی چینل پر صحافت اگر ہم اپنے ملک میں بھی دیکھ لیں تو وہ ٹی وی چینل جس طرح کسی نہ کسی خاص آدمی کے ماتحت ہیں یا اس کی ملکیت ہیں یا ملکیت میں آجائیں گے تو وہ پھر کاروبار کے نظریے سے کام کریں گے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ لوگوں کی تربیت کیسی ہونی چاہئے۔ گاڑی میں بیٹھے ہیں ہم نے سیٹ بیلٹ لگائی ہے یا نہیں لگائی ہے۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی گاڑی کس برانڈ کی ہے؟ کس ماڈل کی ہے؟ اور وہ کتنے میں اچھی بک سکتی ہے؟ اس کا اشتہار کتنے میں اچھا بک سکتا ہے؟ کتنے اچھے پیسے مل سکتے ہیں؟ تو آپ دونوں باتوں کا فرق خود جان سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر صورت حال بالکل بھی اردو صحافت کے لیے نہ پاکستان میں، نہ پاکستان سے باہر، کہیں بھی خوش آئند نہیں ہے ہاں کاروباری لوگوں کے لیے یہ خوش آئند ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کو کسی بھی حوالے سے نظریاتی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، تربیتی حوالے سے دیکھیں تو کہیں بھی اس کا معیار بلند نہیں ہوا بلکہ پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اپنی زبان تہذیب اور ثقافت کے علاوہ صحافی اس ملک کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور خود کو اس ملک کے وفادار کے طور پر پیش کریں۔ جس کے لیے پہلی شرط ہے سچائی۔ اور صحافت کے لئے بھی، ایک صحافی ہی آج اینکر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں انکے لئے بھی اس شعبے میں ایمانداری اور سچائی پہلی شرط ہونی چاہیے۔ جب تک ہم سچائی کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے۔ آگے کامیابی کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم دکان دار بننا چاہتے ہیں ہیں تو وہ ہر شعبے میں بن چکے ہیں ہیں۔ صحافی دکاندار، رپورٹر دکاندار، اینکر دکاندار۔۔ اس لیئے ہمیں اپنی اردو صحافت کی بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنا ہوگا۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib