Shirk Aur Hamara Taghaful
شرک اور ہمارا تغافل
آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن رواج بنتا جا رہا ہے۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مزید کیا تباہ ہوگا؟
یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ نبی پاک ﷺ سمیت سبھی انبیائے کرام اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں۔ لیکن وہ خدا سے آگے نہیں ہیں اور خدا کو ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور کئی شعراء نے نبی پاک ﷺ کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے۔۔ لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے۔۔ خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو، چاہے بری سے بری اور بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں۔
اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے۔ اور تقوی کیا ہے؟ تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے۔
اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔ اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے۔
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو۔ یہ سب انسان ہیں۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔