Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. France Mein Mehangai

France Mein Mehangai

فرانس میں مہنگائی

دنیا بھر میں جہاں جنگوں کی صورتحال نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے وہاں فرانس میں بھی مہنگائی نے عفریت کا روپ دھار لیا ہے۔ پہلے کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے فرانس میں کھانا پینا اتنا سستا ہے کہ معمولی سے معمولی تنخواہ والا بھی آرام سے اپنی مرضی کا مرغی، گوشت، دالیں، سبزیاں، فروٹ خرید سکتا ہے۔ لیکن آج 25 سال میں یہ حالت ہوگئی ہے کہ گوشت فروٹ، سبزی ہر چیز کو تبرک بنا دیا گیا ہے یقین کریں آج کل کے دنوں دسمبر اور جنوری میں جائیں تو کئی جگہ پر سبزیاں تین چار چھ یورو کلو لگی ہوتی ہیں اور آپ حیران ہو جاتے ہیں وہاں پر جب کہ آپ کی تنخواہیں سالہا سال سے نہیں بڑھیں، جبکہ مہنگائی ہر روز بڑھ رہی ہے۔

یہاں پہ ہول سیلر کو تو فائدہ ہے۔ جو لوگ بیچنے والے ہیں وہ تو آرام سے قیمت کی چٹ ایک یورو سے اٹھا کر دو یورو لگا دیں گے لیکن خریدنے والے کی تنخواہ کتنے سالوں سے نہیں بڑھیں، کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں۔ سرکاری تنخواہیں ہوں یا پھر پرائیویٹ لوگوں کی، (پرائیویٹ والے تو ویسے ہی مرتے ہیں تنخواہیں دیتے ہوئے) تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہاں ایک عام آدمی کا خاص طور پر اگر وہ اپنی فیملی کیساتھ رہتا ہے۔ گھر چلانا کس قدر مشکل ہے۔ اگر اسکے دو تین بچے ہیں دو میاں بیوی یعنی پانچ افراد کا کنبہ ہے تو یہاں پر گھر چلانا ایک عذاب بن چکا ہے۔

اگر پانچوں بھی کما رہے ہیں تو ہر بندہ صرف اپنی ضرورت کی چیزیں پوری کرتا ہے کیونکہ عام طور پر یہاں تنخواہیں عموما 1400 سے لے کر 1800 یورو تک کی بنیادی تنخواہیں ہوتی ہیں جس میں اگر ایک آدمی کو اپنے ایک کمرے کا کرایہ دینا پڑ جائے اسے اپنا کھانا پینا کرکے بجلی کے، گیس کے بل اور اپنے چارجز نکال کر جو صفائی ستھرائی کے لازمی آپ نے ہر گھر میں دینے ہوتے ہیں تو یقین کریں مر کے اس کے پاس اگر اس نے گاڑی بھی رکھی ہے تو ناممکن ہے کہ وہ 14 سو یا18 سو یورو میں اپنا بھی گزارا کر سکے۔ ورنہ دو تین سو یورو ہی اسکے پاس بچتا ہے جس میں وہ کھائے گا پیئے گا تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہاں پہ زندگی کس قدر مہنگی ہے۔

فرانس سے باہر یا پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگ بڑے آرام سے منہ کھول کر کوئی موبائلوں کی فرمائشیں کرتا ہے اور کوئی جناب 60,60 ہزار روپے کے پرفیومز گفٹ میں مانگ رہا ہوتا ہے اور انکو تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ ہڈ حرام گھر بیٹھے، لوگوں سے فرمائشی ٹوکرے بھروا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ذرا اندازہ نہیں ہوتا، کہ وہ جو مشقت کر رہا ہے وہ اپنا خرچ بھی کتنی مشکل سے پورا کرتا ہے۔ سرکاری طور پر احتجاج کے لیے یہاں پر زیلے زون نامی تنظیم نے سالہا سال سے یہاں پہ ناانصافی کے قوانین پاس ہو رہے ہیں جس میں ریٹائرمنٹ کا ٹائم مزید طویل کر دیا گیا ہے جس میں تنخواہیں وہیں پہ مستقل کھڑی ہیں اور فیملیز مشکلات کا شکار ہیں۔ کہیں ان کے بینیفٹ روک دیے گئے ہیں، کم کر دیے گئے ہیں ختم کر دیئے گئے ہیں۔

اب وہ دالیں جو ہم کبھی 50 سے 60 سینٹیوں میں ایک کلو خریدا کرتے تھے یا بہت مہنگی ہوتی تو ایک یورو میں ایک کلو لیتے تھے اس وقت وہ پونے تین چار یورو کی کلو لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ حیران ہو جاتے ہیں جس مونگی کی دال کو پاکستان میں ہم مریضوں کی دال کہتے ہیں اور منہ نہیں لگاتے وہ یہاں پر تین سے لے کر چھ یورو تک کلو مختلف جگہوں پر ملتی ہے۔

بھنڈی جیسی سبزی پاکستان میں لوگ اس کی شان میں گستاخیاں کرنے سے نہیں چوکتے آپ سوچیں کہ نخرے کرنے والی وہ بھنڈی یہاں پر ہمیں چھ سے لے کر 12-15 یورو تک کی کلو ملتی ہے اور ایک کلو لینا تو شاید میرا خیال ہے کہ بہت ہی امیر کبیر ہے جو ایک کلو ایک ساتھ اٹھا لیتا ورنہ یہی ہوتا ہے کہ اگر بہت ہی دل کیا تو آپ ایک مٹھی بھر اٹھا کر اسی میں پیاز اور باقی چیزیں مکس کرکے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں اور باقی سبزیوں کا بھی پوچھیں۔۔

اب آؤٹ سیزن ہے تو سبزیوں فروٹ کے آپ پاس سے گزر بھی نہیں سکتے، ایسے جھٹکے دیتی ہیں ان کی قیمتیں کہ دور سے بورڈ دیکھکر آپ خاموشی سے وہاں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ تنخواہیں نہیں بڑھ رہی صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ پیٹرول جو کبھی سینٹیوں میں لیٹر تھا اب یہاں مختلف علاقوں میں ڈھائی سے تین یورو کا ایک لیٹر ڈالا جا رہا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک آدمی نے گاڑی رکھی ہے پھر اس کی پارکنگ کے، چالان کے خرچے پارکنگ تو انہوں نے ختم ہی کر دی ہیں۔ جو ہیں وہ پیسوں کی پارکنگ ہے۔ گھنٹوں کے حساب سے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ دیکھیں تو چالان کی بھرمار ہوتی ہے لوگ گاڑیاں کہاں کھڑی کریں میں تو کہتی ہوں اڑنے والے سلنڈر لے آئیں لوگ اپنے ساتھ باندھ کے اسی میں سفر کو نکلا کریں۔ ان گاڑیوں کا جھنجٹ ہی ختم کر دیں کیونکہ لوگوں نے سفر جو کرنا ہے لوگوں نے ادھر ادھر جانا ہے۔ کیا کریں پھر وہ لوگ۔ بالکل ناک تک لوگوں کو پہنچا دیا ہے۔ اتنی شدید مالی پریشانیاں پہلے کبھی سننے دیکھنے میں نہیں آتی تھیں جتنی اب فیملیز پریشان ہیں۔

پہلے لوگ مہینے بھر کے اپنے تنخواہوں کے خرچ میں سے بھی تھوڑا بہت جوڑ جاڑ کے کھینچ کھانچ کر کوئی ایک ادھ چیز گھر کی، بجلی کی مشین جیسے واشنگ مشین، فرج خراب ہوگیا ہے تو بھی نقد پہ لے سکتے تھے۔ 25 سال پہلے جب میں آئی تھی تو ضرور اسی تنخواہ میں ہم بنا لیا کرتے تھے لیکن آج آپ کی سوچ ہے آج آپ کو جو کچھ لینا ہے آپ کو ادھار یا قسطوں پر ہی لینا ہے یا پھر آپ اس کے لیے پورا سال پیسے جمع کریں کیونکہ آپ تنخواہ دار ہیں آپ کا گزارا نہیں ہو رہا تو کیا کریں گے۔

بہت حیران ہوتی ہوں جب یہاں پر ہمارے مردوں کی ٹولیاں گھنٹوں بیٹھ کر پاکستانی سیاست کی ٹاکیوں کو آسمان پر لگا رہے ہوتے ہیں۔ رونے رو رہے ہوتے ہیں یار وہاں یہ ہوگیا، وہاں مہنگائی ہوگئی وہاں فلانا ہوگیا، ارے بھائی جہاں رہتے ہو پہلے وہاں تو دیکھو وہاں کون سے راشن کے ٹوکرے تمہیں فری میں گھروں میں آ رہے ہیں، وہاں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہاں ہم نے رہنا ہے یہاں کھانا ہے یہاں کے معاملات براہ راست ہمارے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ہمارے اوپر کیا ہمارے ذریعے پھر ہمارے پچھلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن کو مٹھیاں بھر بھر کے پیچھے کچھ نہ کچھ بھیجنا پڑتا ہے اور جو فالتو چیزیں ہمارے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ یہ چیزیں ان پر بھی ان بلواسطہ اثر انداز ہوتی ہیں تو پھر یہاں کی فکر کیجیئے۔ یہاں کے حالات میں، یہاں کے احتجاج میں شامل ہوں یہاں کی اچھی بری باتوں کو نوٹس کریں حکومت کو یہاں کی باتوں پہ توجہ دلانے کے لیئے اچھے کاموں کے ذریعے متوجہ کریں اور ان سے کارکردگی اور اقدامات کے لیئے اصرار کریں۔ ساری قومیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ نہیں ہوتی تو پاکستانی کمیونٹی آپ کو ایسے کاموں میں کہیں نظر نہیں ائے گی۔ ان کاموں سے ان کو دور دور تک لینا دینا نہیں ہے عجیب لوگ ہیں۔

مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری قوم چاہے ملک میں رہیں چاہے ملک سے باہر انہیں ہمیشہ دور والوں کا درد تڑپاتا ہے، اپنے گھر کا کوئی غم نہیں ہوتا فرانس ہمارا گھر ہے۔ ہمارا ملک ہے ہمیں یہاں کے مسائل اور وسائل میں شامل ہونا چاہیئے۔ اگر ہم فائدے لیتے ہیں تو یہاں جو پریشانیاں ہیں یہاں جو نقصان ہو رہے ہوتے ہیں یہاں جو قوانین بنتے ہیں ان میں بھی براہ راست حصہ ڈالنا چاہئے۔ اپنی آواز شامل کرنی چاہیئے۔

یہاں ہماری ڈیڑھ لاکھ کے قریب آبادی ہے اس کے باوجود بھی ہم لوگوں کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ آپ کو شوق نہیں ہے۔ اب تو الیکشن میں بھی کھڑے ہونے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی برائے نام کمیونٹی میں کام کر رہے ہیں۔ وہ کمیونٹی میں کسی متحرک جذبے کو فروغ نہیں دے پاتے۔ وہ بھی اپنی کمیونٹی کے لیئے صرف شو پیس ہیں ٹائم پاس۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan