Cyberwar
سائیبر وار
پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور کو اس بات کی اندازہ بخوبی ہو چکا ہو گا کہ ہم دجالی فتنوں کے دور کے ایک بڑے فتنے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ سائیبر وار ہمارے گھروں پر حملہ آور ہو چکی ہے۔ یہ وہی وقت ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ واضح طور پر فرما چکے ہیں کہ(ترجمہ)نبی کریم ﷺ نے فرمایا "کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا"۔ حوالہ کتاب:صحیح بخاری/حدیث نمبر:3338
اس حدیث کی روشنی میں آج کے حالات کا جائزہ لینے کے لیئے بہت زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ واضح ہو چکا ہے۔ زبانی جمع خرچ کی زیادتی، کھل کر توہین انبیاء بصورت بدکردار لوگوں کو ان کے برابر قرار دینے جیسے مشرکانہ عقائد، دین سے دوری اور نابلد ہونے کے باوجود خود کو دین کا سب سے بڑا عالم ثابت کرنے کی بیہودہ کوششیں، داڑھی اور حجاب کو بدکردار و بدزبان لوگوں کا اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا رواج یا بطور فیشن اپنانا، دوسروں کو اپنے کردار اور اعمال سے متاثر کرنے کے بجائے انہیں ڈرا دھما کر دباو میں لانے کی کوششیں، جب اپنے پاس دکھانے کو کوئی کارکردگی نہ ہو تو سوال پوچھنے والے پر بہتان تراشی کرنا، فرد واحد کے ذاتی عشق میں اپنے ملک مذہب اپنے ملک مذہب اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنا، جعلسازی کے زریعے اپنی بات کو اکثریت کی رائے ثابت کرنے کی مذموم کوششوں سے ملک و قوم کو خطرے میں ڈالنا، جھوٹ بولنا اور کھل کر بولنا اور شرم سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہونا اور بھی بہت کچھ جو صرف باضمیر اور باکردار لوگوں کو ہی دکھائی دے سکتا ہے۔
آج ہم ان سب سے برسر پیکار ہیں۔ اللہ کی مدد کی طلب ہم پر لازم ہے تو اپنی نیتوں اور عقائد کی درستگی ہھی ہمارے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ ہمارے نام نہاد مسلمان حکمران (جس نے اپنی زندگی کے 70 سال بے دینی میں مشرکین کے ساتھ ان کے انداز میں گزاری) نے بدقسمتی سے لمبی زبان والے، بے حیا آنکھوں، دین سے عاری و بیزار وہ زونبیز تیار کر لیئے ہیں جو دوسروں کو کیا خود اپنے پیدا کرنے والوں کو بھی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتارنے کو تیار ہیں تو دوسری جانب خود اپنے وجود کی بوٹی بوٹی نوچنے میں نہ حیران ہیں نہ پریشان۔
ان کے دل سے خدا کا خوف رخصت کیا جا چکا ہے تو ایمان کے ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں ہر ذی شعور اور باشعور اہل ایمان بجا طور پر پریشان ہے۔ وہ اپنی رائے دینا اور اصلاح کی جانب رہنمائی کرنے کا فرض ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے نادان دوست یہ سمجھاتے ہیں کہ بھئی تمہارا کیا کام ہے ان معاملات میں بول کر خود کو گالیاں دلوانا، ذلیل کروانا، خود کو خطرے میں ڈالنا۔ خاموش رہو مزے مزے کی نرم نرم باتیں کرو جس سے ہم لطف اندوز ہوں اور کچھ سیکھیں۔۔ کمال کی بات ہے نا کہ گھر میں اگ لگ جائے اور گھر والے کو مشورہ دیا جائے کہ بیٹھو بھائی آگ بجھانا تو فائر برگیڈ کا کام ہے آو ہمارے ساتھ بیٹھ کر فائربرگیڈ کا انتظار کرو تب تک ہمارے ساتھ خوش گپیاں کرو؟
یا ہھر گھر میں ڈاکہ پڑ جائے ڈاکو تمہارے سامنے ہے تم انہیں پکڑنے کی کوشش سے خود کو خطرے میں مت ڈالو۔ یہ تو پولیس کا کام ہے آو بیٹھو گپیں لگاو اور پولیس کا انتظار کرو؟
یہ کیسی جاہلانہ اور بزدلانہ سوچ پنپ رہی ہے ہمارے اندر؟ کیا ہم اس قدر بےایمان ہو چکے ہیں کہ آواز اٹھا کر بھی کسی برائی کو برائی، جھوٹ کو جھوٹ، غلط کو غلط کہنے کے قابل نہیں رہے؟ ایسے سوچ والوں سے مودبانہ عرض ہے کہ جب ملک حالت جنگ میں ہو تو ہر شعبے کی طرح لکھاریوں اور شاعروں کا بھی فرض ان حالات پر رہنمائی کرنا ہوتا ہے نہ کہ عشقیہ شاعری کرنا اور کوا حلال ہے یا حرام جیسی بحث و تحقیق۔ وگرنہ ایسی ہی قوم پر چنگیز خان نے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر دیئے تھے۔ جن کی لائبرییاں دنیا کی بہترین اور سب سے زیادہ کتب سے بھری ہوئی تھیں۔ جنہیں تلوار چلانے کے موقعے پر بھی زبان چلانے پر زیادہ بھروسہ تھا۔ ایسے میں نتیجہ کھوپڑیوں کے میناروں کہ صورت ہی تو سامنے آنا تھا اور اچھا ہی تو ہے جو دماغ استعمال ہی نہیں ہونے ان کے مینار ہی بن جانا چاہیئیں۔