Aurat Ki Gharelu Nakamian
عورت کی گھریلو ناکامیاں
ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے۔ ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لیکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصاََ بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا۔
کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت کا تقابل کرتے رہنا، اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے زیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا۔ یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہوگا۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہیں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا قتل ہو جائے۔ آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہوگی کہ طلاق لینا ایک دوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کی بیبیوں، بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے۔
کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحاََ گمراہی ہے۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں۔
اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے۔
اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی پاک ﷺ نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک ﷺ اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا۔
اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہوگا۔ اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہوگا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ 18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق۔
انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی۔
۔۔