Khawaja Sara Teesri Jins Nahi
خواجہ سراء تیسری جنس نہیں
برصغیرمیں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جوکہ بالکل نارمل ہیں لیکن اُنہیں ابنارمل درجہ دے دیا گیا ہےجس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں مثلاً مذہبی پیشوا کا امیر ہونا ہم سے برداشت نہیں ہوتا چاہے اس کی آمدن کےزرائع جائز ہی کیوں نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ وہ بیچارہ ہو، بڑا مسکین الطبع ہو اور کم از کم ہم سے تو کم تر ہو تاکہ اگر ہمارے خلاف کوئی بات کرنے سے ڈر جائے اور ہماری طرح نارمل زندگی نہ گزار سکیں اس بعد نمبر آتا ہے۔
ہمارے قومی لیڈروں کا ان کیلئے ہمارے معیارات کافی مختلف ہیں وہ ہم جیسا نہ ہو بلکہ اس کا رہن سہن ہم بہت بلند ہو وہ ہم جیسے کام نہ کرتا ہو۔ ہماری طرح لائنوں میں نہ لگتا ہوں اس کے بچے ہمارے والے اسکولوں میں نہ پڑھتے ہوں وغیرہ وغیرہ اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا بالکل ہماری طرح زندگی بسر کرتا ہوں تو وہ لیڈر کے ساتھ ساتھ قوم کے ہاں فرشتے کا درجہ پا جائے گا، حالانکہ اُسے ہمارے والی ہی زندگی گزارنے چاہیے تاکہ وہ عوام کے دُکھ درد اور مشکلات سے واقف ضرور ہوں۔
اس کے بعد ابنارمل چیزوں میں باری آتی ہے خواجہ سراء، ہیجڑا یا جو بھی آپ اسے کہہ لیں ہم نے قومی و انفرادی سطح پر اسے ایک تیسری جنس سمجھ لیا ہے اصل اس سے بالکل مختلف ہے۔ دنیا بھر میں 15 فی صد لوگ پیدائشی طور پر معذور پیدا ہوتے ہیں اور ان سب میں مختلف قسم کی معذوری پائی جاتی ہےکوئی گونگا ہوتا ہے کوئی بہرہ ہوتا یا کسی کی آنکھوں کی بینائی نہیں ہوتی یا کسی میں کسی قسم معذوری پائی جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح کچھ مرد و خواتین میں جنسیاتی معذروی پائی جاتی کیونکہ یہ بھی اعضاء جسم ہے اس کی بھی معذوری ہوسکتی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کسی میں یہ معذوری پیدائش کے وقت ہی ظاہر ہوجاتی ہے اور کسی میں وقتِ بلوغت یہ معذوری ظاہر ہوتی ہے، تو جس طرح ہم نے اندھے، بہرے اور لنگڑے کیلئے کوئی علیحدہ سے جنس کا تعین نہیں کیا تو جنسی معذور کیلئے ہی کیوں ایک الگ سے تیسری جنس کا نام دیا گیا۔
قرآن و حدیث میں بھی مرد و عورت کو مخاطب کیا گیا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خالق نے ان دو کے علاوہ بھی ایک جنس بنائی ہو اور اسے مخاطب نہ کرے اور اس کے لیے احکام و فرائض نہ ہو جبکہ قرآن مجید میں جنوں کا ذکر آتا ہے اور ان کے ایمان لانے کے واقعات بھی آتے ہیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ خالقِ کائنات ان کو مخاطب نہ کرے اب ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو عورتوں کے مشابہ ہوتے ہیں اور کچھ مردوں کے مشابہ تو ان کے لیے بھی مرد وعورت والے احکام و فرائض ہونگےجس طرح کچھ عورتیں اندھی، بہری ہوتی ہیں اور کچھ مرد۔
بعض کے والدین اُن کو کم علمی اور جہالت کی وجہ سے گھر سے نکال دیتے ہیں اور کچھ لوگ خود گھر سے نکل کر ایک مخصوص گروہ میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں تو اس وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو یا معاشرے دھتکار کی وجہ سے ایک الگ تھلگ جنس سمجھ لیا اور گمراہی کی گھاٹیوں میں بسیرا کر لیا۔ سب سے بڑا ظلم جو ان پر ہوا کہ ان پر کسی نے کوئی توجہ ہی نہیں دی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجو ظلم زیادتی اس گروہ پر ہوئی اس کی داستان تو بہت زیادہ طویل اس سے بڑھ کر جو لاپرواہی ہے کہ آج بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا اور انہیں معاشرے کا انٹرٹینمنٹ پوائنٹ قرار دے دیا گیا۔
اس گروہ کی وجہ سے بہت سے گناہ اور بہت ساری جسمانی و معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ آج تک اس گروہ کو دینی و دنیاوی تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ اب سے گروہ کے لوگوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی جو بہت قابلِ تعریف بات ہے اور وہ کم دینی اور بنیادی تعلیم کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک تیسری جنس سمجھتے ہوئے مالکِ کائنات سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ان کو چاہیے کہ یہ برابر کے حقوق حاصل کریں ورنہ تیسری جنس کیلئے انہیں ایک لمبی اور جنگ لڑنی پڑے گی حقوق حاصل کرنے کیلئے اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ اپنے آپ انہی دو جنسوں میں محدود رکھیں۔