Kal Nawaz Sharif, Aaj Imran Khan
کل نواز شریف، آج عمران خان
اس دور میں سیاسی کارکنوں کی موٹی موٹی دو اقسام پائی جاتی ہیں، ایک قسم وہ جو عمران خان کو پسند کرتی ہے اور دوسری جو عمران خان کو پسند نہیں کرتی۔ ان دونوں میں کافی کچھ مختلف پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کی عمر، تعلیم، تجربہ اور فہم میں فرق پایا جاتا ہے پہلی قسم جو کہ عمران خان کو پسند کرتی ہے ان میں تعلیم یافتہ کافی زیادہ لیکن ان میں ان پڑھوں کی تعداد بھی کافی ہے۔
اگر عمر دیکھی جائے تو عمران خان کے چاہنے والوں کی عمر پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہے۔ اس عمر والوں کے پاس اگر تعلیم ہو تو تجربہ اور فہم و فراست کی بےحد کمی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں ابھی ووٹ دینے کے بھی قابل نہیں ہوتے یعنی وہ جس کو بے پناہ چاہتے ہیں اس کا انتخاب کرنے کے بھی قابل نہیں ہے۔ یہی کم عمر بچے متعدد پارٹیوں کے جلسوں کا ایندھن بھی ہوتے ہیں اور ان کو یوٹیلائز کیا جا رہا ہوتا۔
سڑکوں کی بندش، جلاؤ گھیراؤ میں بھی اس عمر کے سرفروش کام آتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے دیکھا موجودہ لانگ مارچ میں دو نوجوان ہی جان کی بازی ہار گئے۔ آپ اگر ان سے شعوری سوالات کریں تو یہ لوگ بالکل ناواقف ہوتے ہیں اور ان کو ملک کے نفع و نقصان کا بھی علم نہیں ہوتا اسی لیے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کے پاس صرف انہیں باتوں کے جوابات ہوتے ہیں جو ان کے لیڈرز نے ٹیلیویژن پر بیٹھ کر رٹائے ہوتے۔
کبھی بھی سمجھدار، سنجیدہ اور پڑھا لکھا فرد گھیراؤ، جلاؤ اور نقصان پہنچاتا نظر نہیں آۓ گا۔ اب ذرا ان کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بات کریں تو اس عمر کے نوجوانوں نے جب شعوری آنکھ کھولی تو ان میڈیا پر صرف ایک ہی چہرہ دکھایا گیا اور صرف ایک ہی بندہ صادق اور امین بنایا گیا۔ مدِ مقابل کے خلاف زور و شور سے چور، کرپٹ اور نااہل کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ اب اس ماحول میں ایک نومولود سیاسی ذہن جب بار بار ایک ہی بات سنے گا تو ان کے ذہن میں یہ بات گھر کر جائے گی۔
دوسری قسم کے سیاسی کارکنوں کی عمر پینتیس برس سے زیادہ ہے۔ اُن میں آدھے ذوالفقار علی بھٹو کے مداح ہیں اور آدھے نواز شریف کے مداح ہیں۔ بھٹو کے مداح اب جو بوڑھے ہو چکے ہیں انہوں نے بھٹو کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کیا تھا جس طرح آج کا نوجوان کپتان کو اپنا نجات دہندہ مان رہا اور بھٹو کی بھی اسی طرح سیاسی برانڈنگ کی گئی تھی جس طرح عمران خان کی۔
بھٹو کو بھی فنِ کلام پر اسی طرح مہارت حاصل تھی جس طرح عمران خان کو، بلکہ بھٹو صاحب فن کلام میں خان صاحب سے زیادہ قد آور تھے۔ لہٰذا ان کے تحت شعور میں بھٹو کا بُت خان سے زیادہ بڑا نظر آتا ہے اس لیے خان صاحب اُن کو چھوٹے لگتے ہیں، پھر اس کے بعد میاں نواز شریف اسکو بھی سارے سیاسی پراسس سے گزارا گیا کیونکہ ہماری سیاسی نرسری تو ایک ہی ہے نا جو بھی اس پراسس سے گزرے گا وہ بڑا لیڈر ہی ہوگا۔
سیاسی انجینئرنگ کی پراڈکٹس عوام کیلئے قابل اعتماد ہی ہوتی ہیں جب تک مینوفکچرر اُسے خود اپنے ہاتھوں ناکارہ نہ کر دے اور اس میں قصور پراڈکٹس کا نہیں ہوتا بلکہ بنانے والوں نے ہی اس میں نقص رکھے ہوتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ان کو ناکارہ بنا کر کسی اور کو کارآمد بنایا جا سکے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ ہے اور ہم بچارے اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ مینوفکچررز کو ایک مہرہ چاہیے ہوتا جو کہ بلا چوں، چرا ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑا رہے جو یہ کام عمدگی سے کرتا رہے گا وہ کامیاب رہے گا۔