Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Younas Kasana
  4. Gc University Faisalabad Aur Gc University London

Gc University Faisalabad Aur Gc University London

جی سی یونیورسٹی فیصل آباد اور جی سی یونیورسٹی لندن

کبھی کبھی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو برسوں بعد بھی دماغ میں تازہ رہتے ہیں، جیسے کسی استاد کی وہ تنقید جو اصل مضمون بھلا دے اور صرف چپل یاد رہ جائے۔

چند سال پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ہماری ایک شاندار پریزنٹیشن تھی۔ ہم نے دن رات محنت کی تھی، مواد تیار کیا، سلائیڈز بنائیں اور ٹیم ورک پر خاص توجہ دی۔ پریزنٹیشن شروع ہوئی تو سب کچھ اچھا جا رہا تھا، مگر بس ایک "پشاوری چپل" نے ساری کہانی کا رخ بدل دیا۔

ہوا یوں کہ ہماری ٹیم کے ایک رفیق نے جینز کے نیچے پشاوری چپل پہن رکھی تھی۔ وہ خود تو بےفکری سے کھڑا تھا، مگر استادِ محترم کی نظریں سیدھی اس کے پیروں پر جا ٹھہریں۔ پھر کیا تھا جیسے کسی نے تعلیمی گفتگو کو چھوڑ کر فیشن شو کی جیوری کو بلا لیا ہو۔ بات پریزنٹیشن سے نکل کر "پروفیشنل لُک" کے لیکچر میں بدل گئی۔ چپل کو ایسا قومی المیہ قرار دیا گیا کہ پوری ٹیم کی محنت پسِ منظر میں چلی گئی۔ ہم کلاس سے نکلے تو دل میں یہ سوال گونج رہا تھا: کیا علم کا تعلق جوتے سے ہوتا ہے

گزشتہ دنوں جی سی یونیورسٹی لندن میں ہماری پریزنٹیشن تھی۔ وہی کیفیت، وہی اعصاب کی جنگ، لیکن ماحول مختلف۔ تمام کلاس فیلوز ٹو پیس سوٹ میں ملبوس، پالش شدہ جوتے اور میں، کالی شلوار قمیض میں، اوپر کوٹ اور کندھے پر گرم شال۔

دوستوں نے ہنستے ہوئے مشورہ دیا، "یار، شال اتار دو، لگے گا جیسے شادی میں آئے ہو، پریزنٹیشن میں نہیں!"

میں نے مسکرا کر کہا، "آج ذرا تجربہ کرتے ہیں، دیکھتے ہیں یہاں بھی، چپل والا انصاف ہوتا ہے یا نہیں"۔

اور میں نے جان بوجھ کر شال کو کندھے پر اس انداز میں رکھا جیسے کسی بزرگ نے میلے میں رکھی ہوتی ہے۔

پریزنٹیشن شروع ہوئی، سوال جواب ہوئے، دلائل دیے گئے۔ آخر میں انسٹرکٹر نے ہمیں سراہا۔ سب کو تالیاں ملیں۔ کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ "آپ نے شال کیوں اوڑھی ہے؟" یا "ڈریس کوڈ کہاں گیا؟"

اس لمحے دل سے ایک ہی جملہ نکلا: یہی فرق ہے ترقی یافتہ معاشروں اور ہمارے نظامِ تعلیم میں!

وہاں معیار ہے خیال کا، علم کا، اعتماد کا۔

یہاں پیمانہ ہے لباس کا، تلفظ کا اور تاثراتی "امیج" کا۔

میں سوچنے لگا، اگر آئن سٹائن ہمارے کسی یونیورسٹی میں ننگے سر، الجھے بالوں کے ساتھ آ جاتا تو شاید کسی پروفیسر صاحب نے اسے بھی داخلے سے پہلے کان سے پکڑ کر حجام کے پاس بھیج دیا ہوتا۔

ہمارے ہاں "پریزنٹیشن" کے مطلب ہیں: خوبصورت سلائیڈز، انگریزی لب و لہجہ اور چمکتے جوتے۔

اور "مواد"؟ وہ اکثر سلائیڈ نمبر تین سے آگے یاد نہیں رہتا۔

ہم تعلیم کو "تہذیب" کے بجائے "نمائش" بنا بیٹھے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے گریجویٹس ڈگریاں تو لے لیتے ہیں، لیکن خود اعتمادی اور تخلیقی سوچ وہیں کھو دیتے ہیں جہاں استاد کا "ڈریس کوڈ" شروع ہوتا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ لباس کی اہمیت نہیں۔ ظاہر کی نفاست بھی ایک خوبصورتی ہے۔ مگر جب یہ نفاست علم پر حاوی ہو جائے، تو سمجھ لیجیے ہم تعلیم نہیں، صرف فیشن شو کروا رہے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جامعات کو "جوتے اور شال" کے بجائے "خیالات اور تحقیق" کے پیمانے سے پرکھنا سیکھیں۔ استاد وہ نہیں جو چپل پہ دیکھ کر غصہ ہو جائے، استاد وہ ہے جو ذہن کے دروازے کھول دے۔

علم کے میدان میں لباس کا نہیں، سوچ کے انداز کا فرق پڑتا ہے۔

چپل اور شال تو بدل سکتی ہیں، مگر سوچ اگر بدل جائے، تو قومیں بدل جاتی ہیں۔

سو، خدا کے لیے۔۔ اگلی بار کسی طالب علم کی پریزنٹیشن دیکھتے وقت جوتے نہیں، باتیں سنئے۔

کیونکہ اصل خوبصورتی دماغ کی روشنی میں ہے، کپڑے کی چمک میں نہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan