Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Younas Kasana
  4. Bholi Bhali Qaum

Bholi Bhali Qaum

بھولی بھالی قوم

قوموں کی بھی عمریں ہوتی ہیں جیسے انسان کی ہوتی ہیں۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس میں قوتِ فیصلہ کمزور ہوتی ہے، وہ جذبات میں جلد بہک جاتا ہے، جلد خوش بھی ہوتا ہے اور جلد رو بھی پڑتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تجربہ، شعور اور دور اندیشی بڑھتی جاتی ہے اور وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔ مگر افسوس! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم ابھی اپنے بچپن کے دن گزار رہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ایک نادان بچہ بار بار کرتا ہے۔ ہم جلد باتیں بھول جاتے ہیں، تاریخ سے سبق نہیں لیتے، جذبات میں فیصلے کرتے ہیں اور پھر اُن فیصلوں کے نتائج پر حیران رہ جاتے ہیں۔

حال ہی میں پاک افغان کشیدگی اور میڈیا پر جاری بحث و مباحثے نے ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ یا ٹکراؤ کی بات کیوں اور کیسے ہو رہی ہے؟ دونوں ممالک کے درمیان اگر کوئی تنازع ہے تو اس کا حل مذاکرات، سفارتکاری اور سمجھ داری سے نکالا جانا چاہیے، نہ کہ طاقت کے استعمال سے۔

اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کا جنگی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جدید ترین فضائیہ، تربیت یافتہ فوج، جدید میزائل نظام اور وسیع دفاعی انفراسٹرکچر رکھتا ہے۔ پاکستان کے عسکری ادارے دنیا کے مضبوط ترین اداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے خانہ جنگی، بیرونی مداخلت اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی باقاعدہ منظم فوج نہیں، فضائی طاقت تقریباً صفر ہے اور اس کی عسکری صلاحیت زیادہ تر غیر منظم گروہوں پر مبنی ہے۔

یہ کہنا کہ افغانستان پاکستان کے لیے عسکری خطرہ بن سکتا ہے، حقیقت سے دور بات ہے۔ تاہم، خطرہ وہاں سے جنم لیتا ہے جہاں ریاستی کمزوریوں کو غیر ریاستی عناصر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کو زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

اگر معاشی میدان میں دیکھا جائے تو پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود ایک بڑی معیشت ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی (GDP) دو سو پچاس ارب ڈالر سے زائد ہے، صنعتی بنیاد موجود ہے، زراعت اور خدمات کے شعبے کسی حد تک فعال ہیں، جبکہ افغانستان کی معیشت بنیادی طور پر غیر رسمی ذرائع، امداد اور تجارت پر انحصار کرتی ہے۔

افغانستان کی چالیس سالہ جنگوں نے وہاں کے معاشی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، وہاں سرمایہ کاری، صنعت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں دونوں ممالک کا معاشی یا عسکری موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ایک مکمل ریاست کا موازنہ ایک زخم خوردہ، غیر ستحکم ریاست سے کیا جائے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کبھی بھی مکمل طور پر مستحکم نہیں رہے۔ کبھی سرحدی تنازعات، کبھی پناہ گزینوں کا مسئلہ، کبھی دہشت گردی کے الزامات اور کبھی غیر ریاستی عناصر کی مداخلت، یہ تمام عوامل تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور لسانی رشتے بہت گہرے ہیں۔

ہماری تہذیب، زبانیں، کھانے، لباس، حتیٰ کہ موسیقی اور شعر و ادب میں بھی بے شمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اسلام دونوں ممالک کی بنیاد ہے اور ہمارے ہیروز، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، اقبال، سب ایک ہی خطے کے فکری ورثے سے جڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو بڑے بھائی ہونے کے ناطے زیادہ تحمل، بردباری اور حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جذباتی بیانات اور سخت فیصلے وقتی تسکین تو دے سکتے ہیں مگر دیرپا حل نہیں۔

پاکستان کے لیے اصل ترجیح اپنے سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کو یقینی بنانا ہونی چاہیے، کیونکہ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جب افغانستان میں بدامنی پھیلتی ہے تو اس کے اثرات سب سے پہلے پاکستان پر پڑتے ہیں۔ دہشت گردی، اسمگلنگ، غیر قانونی نقل و حرکت اور منشیات، یہ سب مسائل سرحدوں کی کمزوری سے پیدا ہوتے ہیں۔

لہٰذا، اگر پاکستان افغانستان کے ساتھ امن اور مفاہمت کی پالیسی اپنائے، تو یہ نہ صرف دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا بلکہ پورے خطے کے لیے امن و ترقی کا ذریعہ بنے گا۔ افغانستان کے ساتھ امن کا مطلب صرف ایک ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلق نہیں، بلکہ پورے پاکستان میں پائیدار امن کا ضامن ہے۔

آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جنگ ہمیشہ تباہی لاتی ہے، جبکہ امن تعمیر کا راستہ دکھاتا ہے۔ پاکستان کو اپنی طاقت، تجربے اور حکمتِ عملی کو استعمال کرتے ہوئے ایک ذمہ دار اسلامی ریاست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر سرحدوں پر آگ بھڑکے گی تو اس کی لپیٹ میں صرف دشمن نہیں، ہم خود بھی آئیں گے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan