Pani Zindagi Hai, Zindagi Ki Hifazat Lazmi Hai
پانی زندگی ہے، زندگی کی حفاظت لازمی ہے
ہمارے ساتھ معاملہ اس دیہاتی والا ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے ایک کی شادی کسان سے تو دوسری کی شادی ایک کوزہ گر سے کر دی۔ کچھ عرصہ بعد بیٹیوں سے ملنے کا دل کیا تو سب سے پہلے اس بیٹی کے گھر گیا جس کی شادی کسان سے کر دی تھی۔
پوچھا: بیٹی کیسی ہو، کیا حال احوال ہیں، کیسی ہے تمہارے میاں کی روزی اور روزگار؟
بیٹی نے کہا، ابا، قرضہ لیکر زمین ٹھیکے پر لی ہے، جان توڑ کر محنت سے کھلیان اور کھیتی بنائی ہے اور اب قرضہ اٹھا کر بیج ڈال دیا ہے۔ بس آپ دعا کر دیں کسی طرح بارش ہو جائے۔ اگر بارش ہوگئی تو ہمارے وارے نیارے، اور اگر بارش نا ہوئی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
باپ بیٹی کو دعائیں دیکر دوسری بیٹی سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا۔ وہاں دوسری بیٹی جس کی شادی کوزہ گر سے کی تھی بیٹی سے جا کر ملا اور پوچھا، بیٹی کیسی ہو، کیا حال احوال ہیں، کیسی ہے تمہارے میاں کی روزی اور روزگار؟
بیٹی نے کہا: ابا قرضہ لیکر مناسب مٹی اٹھوائی تھی، جان توڑ کر دن رات کرکے مال تیار کیا ہے اور اب سکھانے کیلئے باہر رکھ دیا ہے۔ اب اگر اگلے چند دن بارش نہیں ہوتی ہے تو ہمارے وارے نیارے، اور اگر بارش ہوگئی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
باپ بیٹی کو دعائیں دیتا واپس گھر چلا گیا۔ گھر میں ممتا کی ماری اس کی بیوی بھاگ کر آئی اور اپنے خاوند سے اپنی بیٹیوں کا حال احوال پوچھا، خاوند نے کہا، بس سب ٹھیک ہیں، اگر بارش ہو جاتی ہے تو ہماری بربادی ہے اور اگر نہیں ہوتی تو بھی بربادی ہے
مذکورہ بالا واقعے میں کتنی سچائی اور حقیقت ہے، اللہ ہی جانے، لیکن ہمارے ساتھ حقیقت میں ایسا ہو رہا، اگر بارشیں ہوں بھی تو ہم پریشان، اور نہ ہوں بھی تو بھی ہم پریشان۔
بھارتی آبی جارحیت کی بدولت پاکستان کو ایک عرصے سے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ آج کل تو پانی کی کمی کے ساتھ ہر وقت سیلاب کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی وقت بھارت کے ڈیم بھر جانے پر وہ بغیر کوئی پیشگی اطلاع کے اچانک لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیتا ہے۔ بھارت چاہتا کہ پاکستان میں خشک سالی ہو یا پھر سیلاب تاکہ پاکستان معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہو۔ پاکستان میں پانی کے معاملے پر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو اپنی میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کرکے صوبوں کے درمیان اختلافات پیدا کرکے پاکستان کی یک جہتی کو نقصان پہنچانے کی سازش میں بھی ملوث ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی کے باعث پانی کے معاملے پر اکثر سندھ پنجاب پر اور بلوچستان سندھ پر پانی کی چوری کا رونا روتے آ رہے ہیں۔ پانی ہی کے معاملے پر بعض اوقات صوبوں کے درمیان شدید قسم کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔ دیکھا جائے ملک میں پانی کی کمی کا سبب ایک طرف تو بھارت۔ جس نے لاتعداد ڈیم بنا کر دریاؤں کا رخ تک موڑ کر پاکستان کو بنجر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
دوسری جانب ہماری اپنی بھی نا اہلی شامل ہے اس وقت پاکستان کے پانی کے اہم ذخائر تربیلا منگلا چشمہ اور حب ڈیم ہیں۔ مٹی ریت جمع ہونے کی وجہ سے ان میں اب پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تقریباً چالیس فیصد تک کم ہو کر رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بارشوں کے پانی کا دس فیصد حصہ بھی بمشکل ہم ذخیرہ کر پاتے ہیں یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ملک جو سخت پانی کی کمی کا شکار ہے اور صرف دس فیصد ہے پانی ذخیرہ کرے؟ اور پھر یہی بارشوں کا پانی سیلاب کی صورت میں کئی ماہ تک تباہی مچاتا رہتا ہے۔
کہتے ہیں کہ قدرتی آفات مثلاً سیلاب قحط سالی وبائی امراض زلزلے روکنا کسی کی بس کی بات نہیں ہے تاہم بہترین مینجمنٹ کی بدولت نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے 2010 میں جب ٹوڑی بند ٹوٹا تو دریائے سندھ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا جتنے لاکھ کیوسک پانی دریا سندھ میں ٹوڑی سے نیچے سکھر بیراج کی طرف بہہ رہا تھا اتنا ہی پانی ٹوڑی بند سے بہہ رہا تھا واضح رہے کہ اس سال سندھ میں کوئی زیادہ بارشیں بھی نہیں ہوئی پھر بند ٹوٹنے کی وجہ؟
وہی بھارتی آبی جارحیت اور ہماری اپنی ناہلی سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہر انہار سابق چیئرمین ارسا ادریس راجپوت ٹوڑی بند ٹوٹنے کے اسباب میں دریائے سندھ پر لاڑکانہ رانی پور پل کو بھی سمجھتے ہیں بقول ان کے جہاں پر دریا کا پیٹ کئی کلومیٹر ہو اسی کو بند کرکے چند کلومیٹر تک کردیا جائے تو پھر پانی تو اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔
اپنی نا اہلی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہے کہ سکھر بیراج کے متعدد گیٹس کمزور ہوئے اور پتہ اس وقت چلا جب ایک گیٹ کو پانی بہا کر لے گیا خریف کی پیک سیزن میں سکھر بیراج کا دروازہ 47 پانی میں بہہ گیا اور پھر دروازہ لگانے میں کئی روزکی تاخیر سے این ڈبلیو سی کھیر تھر کینال کے کمانڈ ایریا پر سندھ بلوچستان کے کاشت کاروں کا لاکھوں ایکڑ اراضی پر کاشت کی گئی دھان کی فصل اور پنیری پانی نہ ملنے کی وجہ سے مکمل طور پر جل گئی ہے، جس سے کاشت کاروں کو نا قابل برداشت نقصان پہنچا ہے۔ واضح رہے کہ 2010کے تباہ کن سیلاب کے بعد ملک بھر میں خاص کر سندھ بلوچستان میں تقریباً ہر دوسرے تیسرے سال جون جولائی میں پانی کی سخت قلت اور پھر موسلادھار بارشوں سے ہر جگہ سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے 2010کے سیلاب سے لے کر 2024تک سندھ بلوچستان میں بارشوں سے معتدد بار سیلاب آئے سیلاب لوگوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا۔
کئی سال گزر جانے کے باوجود سیلاب کی تباہ کاریوں سے لوگ نہیں نکل پائے تو 2024 میں ایک بار پھر سیلابی صورتحال حال سے دوچار ہوئے ہیں پی ڈی ایم اے این ڈی ایم اے سمیت بعض این جی اوز کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں رہی اس وقت یہ صورت حال ہے بارشیں نہ ہوں بھی غریب کے لئے عذاب ہوں تو بھی عذاب۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بارش تو رحمت ہے ہمارے لئے کیوں زحمت بن جاتی جواب ہے ہماری نا اہلی ہر بار اربوں ڈالرز کا قیمتی پانی ہم ضائع کرتے آرہے ہیں اسی طرح اس ضائع ہونے والے پانی کی وجہ سے درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہونے کے کے ساتھ سیکنڑوں مویشیوں کی ہلاکت فصلیں باغات تباہ ہونے کے ہر بار لوگوں کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ ایک جانب اربوں روپے کا پانی ضائع تو دوسری جانب لوگوں کے املاک کو اربوں کا نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ جہاں تک پانی ضائع کرنے کی بات ہے تو پہلے سے بنے ڈیموں کی بر وقت اور ضرورت کے مطابق صفائی اور دیکھ بھال۔
نشاندھی کی گئی غیر متنازعہ نئے ڈیموں کی تعمیر، برساتی نالوں آبی گزرگاہوں کی صفائی تو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں حکومت انتہائی غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے، تاہم پبلک کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اپنی فصلوں، باغات کو بچانے کی خاطر پانی کو راستہ نہ دینے، آبی گزرگاہوں پر تجاوزات قائم کرنے، پانی کا غیر فطری طریقے سے رخ موڑنے جیسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔ چند روز قبل مجھے نجی کام کے سلسلے میں کراچی اسکیم 33سرجانی کے سندھی ہوٹل کے علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ سڑک کے دونوں جانب بنائے گئے نالے پر بیسیوں دوکانیں بنائی گئی تھیں اب اگر عروس البلاد کراچی کا یہ حال تو ہم بلوچستان والے تو پہلے ہی پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ ہیں پھر اگر ہم سے اس طرح کی حرکتیں سرزد ہوں تو ہم بے معیاری ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر مذکورہ ڈیموں سے نہ صرف مٹی ریت نکالنے کے لئے اقدامات کرے نئے ڈیموں کی تعمیر شروع کرے۔ نیز برساتی نالوں تمام آبی گزرگاہوں پر قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے ساتھ ملک بھر میں یکساں بلڈنگ کوڈ نافذ کرکے اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے جس میں نکاسی آب پر کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ اس وقت پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے دنیا خبردار کررہی ہے کہ اس تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ہنگامی طور پر خود کو تیار کرنا ہوگا کیونکہ وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔