Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Balochistan Ke Green Belt Ki Tabahi Ka Zimmedar Kon?

Balochistan Ke Green Belt Ki Tabahi Ka Zimmedar Kon?

بلوچستان کے گرین بیلٹ کی تباہی کا زمہ دار کون؟

ڈھائی تین ماہ کی غیر حاضری، خاموشی کے بعد ایک بار پھر حاضر خدمت ہوں۔ طویل غیر حاضری کی وجہ کچھ نجی مصروفیات طبعیت کی ناسازی بھی ہے۔

قارئین پاکستان بھر میں بلوچستان کے گرین بیلٹ سے شہرت رکھنے والا علاقہ نصیرآباد ڈویژن جس میں استا محمد، جعفرآباد، صحبت پور، نصیر آباد، اضلاع سمیت جھل مگسی کا بھی کچھ حصہ شامل ہے، دریائے سندھ سے نکلنے والے کھیر تھر اور پٹ فیڈرکینالز کی بدولت تقریباً نو لاکھ ایکڑ اراضی پر خریف اور ربیع کی فصلیں کاشت کی جاتی ہے۔ جن میں خریف کی فہرست چاول ہے اور ربیع کی فصلوں میں گندم ہے 1990سے لے کر 2008-9 تک پورے علاقے میں زرعی اجناس کی بہترین پیداوار کی بدولت ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی۔ کیا زمیندار کیا بزرگ سب زرعی اجناس کی بھرپور پیداوار کی بدولت بہت ہی خوش اور مطمئن تھے۔ دیہات گاؤں شہر خوب ترقی کرتے جارہے تھے سندھ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لوگ روز گار کے سلسلے میں یہاں پر آباد ہونے لگے ہر طرف سکھ وچین کی بانسری بجائی جارہی تھی پھر اچانک 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پورے علاقہ کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔

اب اس پورے علاقے کی صورت حال یہ ہے ہر سال خشک سالی اور اس کے بعد سیلابی کیفیت پیدا کی جاتی ہے جس کی وجہ پورا علاقہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے اپنے آباؤ اجداد کاعلاقے چھوڑ کر کراچی، حیدرآباد، سکھر سمیت پنجاب کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ 2010 سے شروع ہونے والی ہجرت کا سلسلہ تاحال جاری ہے کیونکہ ہر سال خریف کی کاشت کے وقت پانی کی شدید قلت پیدا کی جاتی ہے۔ جیسے تیسے کاشت کار لاکھوں روپے خرچ کرکے سر توڑ کوششوں کے بعد خریف کی فصل کاشت کرلیتے ہیں۔ چاول کی فصل کاشت ہونے کے چند دن بعد پورے علاقہ میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی جاتی ہے۔ ہر سال کی خشک سالی اور سیلاب سے غریب لوگ عاجز آگئے ہیں۔ واضح رہے آج سے صرف بیس دن قبل پانی کی قلت کی وجہ کمانڈ ایریا کے ہیڈ کے کاشت کار لاکھوں روپے خرچ کرکے بھاری مشینیں اور ٹریکٹر لگا کر نہروں سے پانی لیفٹ کرکے چاول کی فصل اور اس کی پنیری بچانے کی کوشش کرتے رہے جو کہ دیکھا جائے غیر قانونی عمل ہے جس سے ٹیل کے کاشتکاروں کی مکمل طور حق تلفی ہوتی ہے۔ اس عمل پر ٹیل کے کاشت کار چیختے چلاتے رہے ان لوگوں کی چیخ و پکار کسی نے نہیں سنی نہ محکمہ انہار اور نہ ہی انتظامیہ نے۔

بارشوں کے بعد آج پھر یہی زمیندار ایک بار پھر لاکھوں روپے خرچ کرکے فصلوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے پھر پانی نکالنے میں مصروف ہیں فصلوں کو پانی دیتے اور فصلوں سے پانی نکالتے وقت لاکھوں روپے خرچ کرکے فصلوں کو بچانے کے لئے مزید خرچ کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ٹیل کے کاشت کار ایک بار پھر سراپہ احتجاج ہیں۔ ہیڈ کے زمیندار اپنے فصلوں کو بچانے کی خاطر فصلوں سے پانی نکال کر ٹیل کی طرف چھوڑتے ہیں جس سے ٹیل کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ میرے گرین بیلٹ میں اب سیاست صرف پانی سیلاب اور امدادی سامان کی فراہمی کے نام پر کی جارہی ہے 2010کے تباہ کن سیلاب میں استا محمد کی عوام نے دیکھا کہ ایم پی اے کے امیدوار عطا اللہ خان اور ان کی ہمشیرہ جو دوسری بار خواتین کے مخصوص نشست پر کامیابی حاصل کرنے والی ڈاکٹر ربابہ صاحبہ کے والد محترم ستر سالہ میر بہرام خان بلیدی نے دن رات خود ایکسیویٹر مشین چلا کر استا محمد شہر کو سیلاب سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ جس کی وجہ سے علاقے میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی علاقے کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ گو کہ اس بات کو چودہ سال ہوگئے ہیں لیکن آج بھی اس کام کا کریڈٹ لیا جارہا ہے۔

اسی طرح میں گزشتہ کئی روز سے دیکھ رہا ہوں ایم پی اے جعفرآباد عبد المجید بادینی صاحب ڈیرہ اللہ یار سٹی اور دیگر علاقوں کو سیلاب سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں یہاں تک صرف بنیان پہنے ہوئے موصوف کو ایک عام مزدور کی طرح مزدورں کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ مذکورہ ایم پی اے صاحب کے اس عمل کو دیکھ کر ان کی حمایت اور مخالفت میں ایک طویل بحث شروع ہوگئی ہے تاہم میری نظر میں بھی یہ عمل مناسب نہیں لگتا ہے انھیں چاہئے کہ وہ انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو حکم دیتے اور خود اس کی نگرانی کرتے تو بہتر تھا۔

میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ نصیر آباد ڈویژن کے چار اضلاع میں سیاست اب صرف تین باتوں پر کی جا رہی پانی سیلاب اور فنڈز کی فراہمی کے نام پر اسکورنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں یہ واحد علاقہ ہے جس کی زمینیں نہری پانی سے سیراب کی جاتی۔ پورے ڈویژن میں لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے ظاہر ہے زراعت کا دارومدار پانی پر ہے۔

ایک عرصے سے سندھ ہمیں ہمارے حصے کا پانی نہیں دیتا جبکہ بین الصوبائی معاہدے کے مطابق دریا میں پانی کی کمی کی صورت میں پنجاب اور سندھ آپس میں شئیر کریں گے جبکہ بلوچستان اس کٹوتی سے مستثنی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کبھی بھی سندھ حکومت نے ہمیں ہمارے حصے کا پورا پانی نہیں دیا۔ علاقے کے لوگوں کی خواہش ہے کہ ہم ایسا نمائندہ منتخب کریں جو ہمیں ہمارے حصے کا پانی دلائے۔ الیکشن سے پہلے ہر امیدوار یہی دعوای کرتا ہے اسی طرح 2010 کے سیلاب کے بعد ہمارے کینال اور نہروں کا انفرا سٹیکچر بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے معمولی بارشوں میں بھی علاقے میں سیلاب پہنچ جاتا ہے، سینکڑوں افراد بے گھر ہوکر کئی روز تک کھولے آسمان تلے بے یار و مددگار بھوک پیاس میں پڑے رہتے ہیں۔ اس لئے جو بھی امیدوار ان کو سیلاب سے بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو یہ سیلاب متاثرین اس امیدوار کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں پھر اسی طرح سب کچھ سیلاب کی نذر ہونے والے لوگوں کو پی ڈی ایم اے این ڈی ایم اے اور مختلف این جی اوز کی جانب سے امداد لے کر دینے کی یقین دھانی کرانے والے امیدوار کو لوگ سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

اب آتے ہیں اس بات کی جانب جس کی وجہ سے میرے گرین بیلٹ کو تباہی کے دہانے پر کس کس نے پہنچایا خوش حالی کو بد حالی میں تبدیل کرنے والے کون لوگ ہیں؟

تو جناب میں سمجھتا ہوں اس میں سر فہرست قصور وار محکمہ انہار کے کرپٹ نااہل اہلکار ہیں اور ڈویژنل انتظامیہ سیاسی نمائندے بڑے زمیندار جاگیردار شامل ہیں مضمون کی طوالت کے باعث ان کا تفصیلی ذکر پھر کسی کالم میں پیش کرونگا فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ میرے علاقے کے غریب بےبسوں کی آہ اک روز ضرور رنگ لائے گی مظلوموں کی بد دعا ایسا نہ ہو کہ ایک روز سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گا۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed