Hamsaye Maa Jaye
ہمسائے ماں جائے
یہ سنہ 95 یا 1996 کی بات ہوگی کہ ابّا گھر کے لیے سعودیہ سے کافی سارا سامان لے آئے تھے، جس میں دو تین جوسر، دو بروسٹ مشین، دو تین فینسی ٹیبل فین، استریاں، کلر ٹی وی، وی سی آر، بچوں کے مہنگے کھلونے اور کچھ دوست احباب کا سامان جیسے قیمتی کمبل وغیرہ اور نجانے کیا کچھ لے کر آئے تھے۔
ہم جس کرائے کے گھر میں رہتے تھے اسی مالک مکان کی بوڑھی ماں ہمارے گھر آیا کرتی تھی، ماں میری سادا عورت ہر ایک پے اعتبار اور اعتماد کر لیا کرتی تھی اور ہر ایک کو اپنے جیسے سادا اور خیر خواہ سمجھا کرتی تھی تو مالک مکان کی ماں روزانہ 2-3 بار ہمارے گھر چکر لگایا کرتی تھی اور اماں ان کو ماں سمان سمجھ کر خوب آؤ بگھت کرتی تھی وہ میری ماں کو کہتی کہ میرے 3 بیٹے ہیں پر میری پروا نہیں کرتے، مجھے پوچھتے نہیں ہیں بس اسی پیش نظر میری ماں خدا ترسی کیا کرتی تھی اور پھر اس بوڑھی اماں نے میری ماں کو اپنی بیٹی بنا لیا کہ تو میری بیٹی ہے اور پھر اماں سے ایسے شیریں انداز سے اور بناوٹی منہ بنا بنا کر باتیں کرتی کہ میری ماں ان کی مکاری کو سمجھ نہ سکی اور ان کو ماں جی ماں جی کرکے پکارتی اور ان کی ہر طرح سے خدمت کرتی کہ بوڑھی عورت ہے بیٹے خیر خیریت پوچھتے نہیں ہیں تو ایسے میں کبھی کچھ پیسے دے دیے، کبھی بازار سے کچھ منگوا کر کھلا پلا دیا تو کبھی کوئی سوٹ وغیرہ دے دیا اور وہ بوڑھی اماں اپنے مشن پے لگی ہوئی تھی، وہ بہانے بہانے سے میری ماں سے ساری باتیں اگلواتی رہی کہ تیرا شوہر کب سے سعودیہ میں ہے، کیا کرتا ہے، کتنے پیسے بھیجتا ہے، کیا کیا سامان لایا ہے وغیرہ وغیرہ۔
پھر میری نانی اماں کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تو اماں ان کے ساتھ ملتان کے نشتر ہسپتال میں موجود تھی ہم بچے اپنی خالہ کے ہاں رکے ہوئے تھے کیونکہ ہمارا اور خالہ کا گھر آس پاس ہی تھا اور جب میں اگلے دن اپنے کزن کے ساتھ صبح اپنے گھر گیا تو آگے سے دروازے پے لگا تالا ٹوٹا ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران کہ میں تو تالا لگا کر گیا تھا یہ کیسے ٹوٹا اور جب گھر کے اندر گیا تو سارا سامان بکھرا ہوا، پیٹی کا تالا ٹوٹا ہوا اور پیٹی میں رکھا سارا سامان غائب اور سعودیہ سے آیا ہوا سارا کا سارا قیمتی سامان چوری ہو چکا تھا اور یہ سب دیکھ کر میں رونے لگ گیا اپنے کزن کو کہا کہ جاؤ خالہ کو بتاؤ اور کہو سب جلدی یہاں پہنچیں۔
بعد میں پتا چلا مالک مکان کے نشئی بھائی نے چوری کی ہے اور وہ جو مالک مکان کی ماں ہمارے گھر بار بار بہانے سے آتی تھی وہ ساری مخبری کرنے آیا کرتی تھی اور میری ماں اسے ماں جی ماں جی کہا کرتی تھی اور اس مکار بوڑھی عورت نے ہمیں بھاری مالی نقصان سے دوچار کر دیا۔
پھر ماموں نے چوری کی FIR کٹوائی تو پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا، آج چور پکڑتے ہیں اور کل چوڑ پکڑتے ہیں، پھر ہمیں محلے داروں نے کہا کہ آپ لوگ پولیس کو چائے پانی لگاؤ پھر ہی چور ہاتھ آئے گا۔
خیر ابا کو فون کرکے بتایا ابا نے سعودیہ سے مذید پیسے بھیجے اور ماموں نے پولیس کو چائے پانی لگایا تو دوسرے دن چور ہاتھ آ گیا۔
تب خط و کتابت ہوا کرتی تھی یا پھر PCO سے 80 سے لے کر 100 روپے (کمی پیشی معاف کہ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں) میں سعودیہ 1 منٹ کی کال ہوا کرتی تھی۔
اور پھر ابّا کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ جب مجھے چوری کا پتا لگا تو میں پریشانی میں گھرا ہوا بنا دیکھے سڑک کراس کر رہا تھا کہ میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا اور ٹانگوں پے کافی چوٹیں آئی ہیں بس دعا کرنا کہ میں ٹھیک ہو جاؤں اور فکر مت کرو جو ہونا تھا ہوگیا میں اگلی بار اس سے بھی زیادہ سامان لے آؤں گا۔
خیر یہاں چور نے سب مان لیا کہ میں نے اور میرے دوستوں نے مل کر چوری کی ہے تو اس چور کی وہی بوڑھی ماں یوسف رضا گیلانی کے پاس جا کر بیٹھ گئی کہ میڈے پتر کو مار ڈیسن، میرے پتر کو چھڑوا، میرے بیٹے کو مار ڈالے گے میرے بیٹے کو چھڑواؤ۔
آخر کار یوسف رضا گیلانی کی مداخلت سے وہ چور باعزت بری ہوگیا اور ہمارا سارا قیمتی سامان گیا، ہم سب پریشان ہوئے، ابا کا ایکسیڈینٹ ہوا، اوپر سے پولیس کو الگ پیسے دیے اور آخر کار کوئی ٹوٹا پھوٹا آدھا ادھورا کچھ سامان واپس ملا۔
ایک آدھ ہفتے بعد سرگودھا سے دو بھائی ہمارے گھر آئے کہ جی آپ کے ابّا ہمارے لیے سعودیہ سے دو کمبل لے آئے ہیں تو ہم وہ لینے آئے ہیں ہم نے کہا کہ ہماری چوری ہوگئی ہے اسی میں سب کچھ چوری ہوگیا ہے تو انہیں یقین نہ آیا کہ ان کی نیت خراب ہوگئی ہے اس لیے چوری کا جھوٹا ڈرامہ کر رہے ہیں پھر انہیں ہمارے محلے والوں نے بتایا کہ ہاں ان کے گھر چوری ہوگئی ہے پھر انہیں یقین آیا اور تب انہوں نے معذرت کی اور خالی ہاتھ واپس سرگودھا چلے گئے۔
تو آپ کے ہمسائے کی عورتیں بلا وجہ اور بلاضرورت بار بار آپ کے گھر آتی ہیں اور آپ کے گھر کی عورتوں کی بڑی خیر خواہ بنتی ہیں، ان کی ٹوہ بازی کرتی ہیں تو اپنی محرم عورتوں کو چکنا کر دیں کہ اپنے گھر کی کوئی بات ہمسائیوں کی عورتوں سے شئیر نہیں کرنی کہ ہمارے پاس کتنی جائیداد زمین، بینک بیلینس، کاروبار، زیور، نقدی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم کب کہاں جا رہے ہیں، گھر میں کون کون ہے، گھر کب خالی ہوگا، گھر میں کب کون کون ہوگا، یہ عورتیں ہی ٹوہ بازی کرتی ہیں کیونکہ غیر مرد تو گھر نہیں آ سکتے پر ہمسائے کی عورت تو باآسانی گھر آ جاتی ہیں۔
یقیناً پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں پر اچھے اور خیر خواہ ہمسائے قسمت سے ملا کرتے ہیں ورنہ اکثر ہمسائیوں کا حسد جلن کٹھن کھا جاتا ہے، پھر ان کی بری نظر آپ کی خوشیوں کو کھا جاتی ہیں یا پھر وہ اپنی بری سوچ اور بری فطرت سے آپ کو جانی و مالی نقصان سے دوچار کر دیتے ہیں۔
میری ماں بعد میں افسوس کر کرکے کہا کرتی تھی کہ میری غلطی تھی کہ میں اسے ماں سمجھ کر ہر بات بتاتی رہی اور وہ مکار عورت میرا گھر اجاڑ گئی۔
آپ یہ سوچ لیں کہ 90 کی دہائی کا دور سادگی، اپنائیت، انسانیت اور مروت والا دور تھا پر اس دور میں بھی ہمارے ساتھ چوری کا بدترین حادثہ ہوا اور اس دور میں چوری کروانے والی اس چور کی بوڑھی مکار ماں نکلی اور مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج کا دور کیسا مارا ماری اور نفسا نفسی کا دور ہے۔
اس لیے احتیاط کریں اور محدود رہے آج وہ دور نہیں ہے کہ لوگ آپ کی خوشیوں میں خوش ہوں بلکہ آج آپ مسکرا لیں تو لوگوں کے پیٹ میں مڑوڑ پڑنے لگ جاتے ہیں کہ میں اگر ناخوش ہوں تو یہ کیوں مسکرا رہا ہے اور میں اگر دکھی ہوں تو یہ کیوں سکھی ہے۔
تو یہ حال ہے ہمسائیوں کا کہ کب کون حیوان اور شیطان بن جائے نہیں پتا آپ کو۔۔ باہر سے فرشتہ اور اندر سے شیطان نکلتے ہیں۔ ابھی ایک خبر دیکھی کہ ملتان میں ہمسائیوں نے ہمسائے کی 9 سالہ بیٹی کو پہلے اغوا کیا اور پھر قتل کرکے سوفے میں سی دیا اور جب بچی کے باپ کا انٹر ویو سنا تو پتا چلا کہ بچی کا باپ سعودیہ رہتا تھا جو بچی کی وفات کا سن کر بھاگم بھاگ ملتان پہنچا اور مجھے بچی کے اغوا کی ساری کہانی سمجھ آ گئی۔
اوورسیز پاکستانی اس معاملے میں بہت اور نہایت احتیاط کریں کہ اپنے ہمسائیوں اور آس پاس کے لوگوں سے بچ کے رہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے گھر کا باپ، بھائی بیٹا بیرون ممالک میں ہے تو یہ مالدار اور خوشحال ہیں اس لیے ان کے گھر والوں کو مختلف طریقے اور حیلے بہانوں سے لوٹو کھسوٹو۔
اللہ ہمیں حقیقی انسان بنائے، ہمیں ہمارے اپنے اور دوسروں کے شر شیطانیت سے محفوظ فرمائے، ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں بانٹنے والا بنائے۔

