Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Bashir
  4. Bache Ka Kya Qasoor?

Bache Ka Kya Qasoor?

بچے کا کیا قصور؟

ڈان نیوز کے مطابق راولپنڈی کے علاقے رتہ امرال میں گلی میں کھیلتے ہوئے لاپتا ہونے والی کم سن بچی کی لاش گندے نالے سے مل گئی، پولیس کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر ایک لڑکے نے قتل کیا، جو اس کا قریبی عزیز ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک سالہ مریم رتہ امرال کے محلہ قاضیان میں اپنے گھر کے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اچانک لاپتا ہوگئی۔ بچی کی گمشدگی کے بعد اس کے والدین نے خود سے تلاش شروع کی لیکن جب کوئی سراغ نہ ملا تو اس کی دادی مسرت بی بی نے پولیس سے رابطہ کیا اور متعلقہ قانون کے تحت مقدمہ درج کروایا۔

تلاش کے دوران جمعرات کو بچی کی لاش دھوک رتہ کے مرکزی گندے نالے سے ملی، مقامی پولیس موقع پر پہنچی اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی۔ بعد ازاں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا، جس کی شناخت اذان سلطان کے نام سے ہوئی، اس کی عمر 10 سال اور 6 ماہ ہے اور وہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھا، مقامی عدالت نے ملزم بچے کو پروٹیکشن بیورو منتقل کرنے کا حکم دیا۔

ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے انکشاف کیا کہ اُس نے بچی کو اُٹھایا اور اس کا سر گندے نالے کے پانی میں ڈال دیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی، تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے بیان دیا کہ مجھے وہ اچھی نہیں لگتی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزم تک پہنچا گیا، جس میں اُسے بچی کو گلی سے اُٹھا کر لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، بچی کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد اس کے والدین کے حوالے کر دی گئی۔

معلوم ہوا ہے کہ بچی کے والد کنٹونمنٹ بورڈ میں ملازم ہیں جبکہ ملزم کا والد منشیات کا عادی ہے اور اس کی والدہ اُسے چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر جا چکی ہیں۔ اب یہاں سمجھنے والوں کے لیے اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس بچے نے ایک سالہ معصوم بچی کو کیوں مارا اور کیوں کہا کہ وہ اسے اچھی نہیں لگتی تھی۔

خبر کے مطابق جیسے بتایا گیا کہ بچے کا باپ نشے کا عادی ہے اور بچے کی ماں اس کے باپ کو چھوڑ کر میکے جا بیٹھی ہے۔

مطلب نہ باپ کا پیار اور نہ ہی ماں کا پیار ملا ایسے میں مقتولہ بچی کے والدین جب اپنی بچی کو پیار محبت کرتے ہونگے تو یقیناً یہ بچہ دیکھتا ہوگا اور اسے یہ سب دیکھ کر احساس محرومی ہوتا ہوگا کہ میرے والدین بھی مجھے ایسے ہی پیار کرتے مگر بدقسمتی سے اس کے والدین برے والدین ثابت ہوئے خاص طور پے بد بخت باپ، جس کی وجہ سے اس کی ماں بھی اسے چھوڑ گئی۔

ایسے میں جب بچے کو والدین کا پیار، توجہ اور دیگر ملنے والی باتیں نہ ملے تو پھر بچہ خود سے اور دوسروں سے نفرت کرتا ہے اور اپنے سے کمزور پے اپنا غصہ نکالتا ہے، جو خیر سے بچے نے ایک سالہ بچی پے اپنی تمام محرومیوں کا غصہ نکالا۔ اس بچے نے اس عمر میں ایک بچی کو جان سے مارا اور کل کو یہ بڑا ہو کر پھر کسی انسان کی جان لے کر اپنی محرومیوں کا بدلہ لے گا۔

اصل میں پولیس کو چاہیے تھا کہ اس بچے کو گرفتار کرنے کی بجائے اس کے بد بخت باپ کو گرفتار کرتی اور یہ قتل کا مقدمہ اس پے بنایا جاتا، کیونکہ اصل مجرم تو وہ ہے جس کی مجرمانہ غفلت و لاپروائی کی وجہ سے اس کا دس سالہ بیٹا مجرم بن گیا۔

اب زرا یہ سوچیں کہ باپ نشئی ہے اور ایک بیٹے کی یہ حالت ہے تو نہیں معلوم کہ اس کے اور بھی بہن بھائی ہیں یا نہیں اور نہیں ہیں تو بہت اچھی بات ہے اور اگر ایسے میں نشئی باپ اور بچے پیدا کرتا رہے تو سوچو ان بچوں کی کیا زندگی ہوگی اور انہوں نے معاشرے میں کیا بننا اور کرنا ہے یقیناً وہ بھی اپنے بھائی جیسے بنے گے اور اپنے بھائی جیسے کسی کی جان و مال کا نقصان کریں گے۔

میں اسی لیے کہتا ہوں کہ والدین کا بچے پیدا کرنا فرض ہے یا نہیں پر بچے پیدا کرنے کے بعد ان کی تعلیم تربیت کرنا، انہیں تحفظ دینا، اچھا انسان بنانا، اچھا و مناسب مستقبل دینا والدین کا اولین فرض ہے اور اگر آپ نے یہ سب نہ کیا تو وہ اپنا، آپ کا اور معاشرے کا وہ وہ نقصان کرے گا جس کا آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔

ہر بچہ/بچی ہیرے جیسے ہوتے ہے جسے والدین تراش خراش کرکے نکھارتے اور سنوارتے ہیں اور وہ بچہ اپنے، والدین اور دوسروں کے لیے روشنی اور خوشی کا باعث بنتا ہے پر اب یہ والدین ہے منحصر ہے کہ وہ بچے کو ہیرا بناتے ہیں یا پھر کوئلہ بناتے ہیں وہ کوئلہ جو خود بھی جلتا ہے اور دوسروں کو بھی جلا کر رکھ کر دیتا ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan