Nature Ki Behas Akhir Hai Kya?
نیچرکی بحث آخر ہے کیا؟
کسی نر جاندار کے کچھ زندہ سیلز لے کر مادہ کی اووری میں رکھ دیئے جائیں تو نر کی شکل سے ملتا جلتا جاندار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کلوننگ کے اسی عمل سے دنیا میں پہلی بچی نے آنکھ کھولی اس بچی کا نام حوا تھا۔ اسی عمل سے ایک بھیڑ پیدا کی گئی اس کا نام ڈولی بھیڑ تھا۔ کیا کلوننگ کے عمل سے یا قدرتی طریقے سے آئن سٹائن یا اسٹیفن ہاکنگ پیدا کیا جا سکتا ہے؟ جو صرف دیکھنے میں ہی آئن سٹائن یا ہاکنگ نہ ہو بلکہ اس طرز پرسوچ سکے اور اسی طرح کے بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکے جو ان جیسے بڑے لوگوں نے دیے۔ نفسیات، جنیٹک انجینئرنگ، فلسفے کی دنیا میں یہ ملین ڈالر سوال ہے؟ کسی انسان کے پیدا ہونے سے لے کر بالغ ہونے تک اور اس کے کسی مخصوص فیلڈ میں کوئی کام کرنے سے لے کر کوئی بڑا کام کرنے تک تین چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔ پہلی چیز جینز(genes) ھیں۔ ہماری شکل قد کاٹھ، کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ سے کس طرح کے جینز inherent کرتے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان چیزوں کا تعلق دادا، پرداد سے ہو۔ انسان کے علاوہ یہ چیزیں جانوروں میں بھی بڑی حد تک موثر ہوتی ہیں ، مثلا تانگے کے آگے جتا ہوا گھوڑا اور نیزہ بازی یا ریس میں دوڑنے والے گھوڑے میں ایک چیز جو معنی رکھتی ہے وہ یہ کہ اس کا تعلق کس بلڈ لائن سے ہے۔
جانوروں سے کام لینے کے لیے ہم اپنے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مخصوص بلڈ لائن کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی گھوڑا خوبصورتی میں دوسروں سے بہتر ہوں لیکن وہ اتنا تیز نہ دوڑ سکے۔ جانوروں کی زندگی اور کام کرنے کا انحصار اس صرف اور صرف جینز پر ہوتا ہے۔ جنیٹکس کی اپنی میموری بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اجنبی راستوں پر چلتے ہوئے، کسی قلعے یا پرانی عمارتوں میں جا کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہاں پہلے بھی آچکے ہیں، حالانکہ زندگی میں وہ پہلی مرتبہ اس جگہ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کے ساتھ کچھ دوستوں نے اس طرح کے تجربے کو شیئر کیا۔ وہ اس طرح کے واقعات کو لے کر کافی تذبذب کا شکار تھے۔ یہ میموری انسانوں نے جینز کے ذریعے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کی ہوئی ہوتی ہے ان لوگوں کے آباؤ اجداد میں سے کوئی اس جگہ کو دیکھ چکا ہوتا ہے۔ جینز کا ایک خاص طرح کا دباؤ ہماری شخصیت میں ہوتا ہے۔ ایک لوہار کا بیٹا اگر ساری عمر لوہے سے متعلق کوئی کام نہ بھی کرے لیکن کسی دوسرے انسان کی نسبت جب بھی کیل ٹھونکے گا تھوڑا بہتر ٹھونکے گا۔ انگریز جنگ لڑنے کے لیے میانوالی اور جہلم کے لوگوں کا انتخاب کرتا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ جینیاتی طور پر جنگجو تھے۔ اس طرح جمیکا کے اتھلیٹ پوری دنیا میں مشہور ہیں کیونکہ جینیاتی طور پر ان کے مسلز میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو ان کے مسلز کو زیادہ لچکدار بناتی ہے۔
جانوروں کی حد تک تو بات یہیں ختم ہو جاتی ہے جانور صرف جینز اور جبلتوں کے زیر اثر پوری زندگی گزار جاتے ہیں۔ لیکن انسانوں پر جو دوسری چیز اثرانداز ہوتی ہے وہ یہ کہ ہمارے اردگرد کس طرح کا ماحول ہے۔ ماحول کسی انسانی شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر شعور والی انسان کے اوپر نہ کھلے یا انسان اندر سے بنا ہوا نہ ہو تو ٹھیک چالیسویں دن انسان ویسا ہی behaveکرے گا جیسا کہ اس کے اردگرد کے لوگ کرتے ہیں۔ کسی انسان کو پنپنے کے لئے جو سازگار ماحول چاہیے اگر وہ میسر نہ ہو تو وہ کوئی کارنامہ تو دور کی بات ہے سطحی سا کام بھی سرانجام نہیں دے سکتا۔ افریقہ کے دور دراز گاؤں میں بھی کوئی ڈاکٹر انجینئر، سائنسدان پیدا ہوتا ہوگا۔ لیکن جو بچہ اس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے اس بچارے کی ساری عمر روزی روٹی کی تلاش میں گزر جاتی ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان یا کسی اور تیسری دنیا کے ملک سے پڑھائی کی غرض سے بڑے بڑے ملکوں کا سفر کرتے ہیں۔ اس ماحول میں جاتے ہیں ان کے بولنے کا انداز، سوچنے سمجھنے کا انداز، یہاں تک کہ دوسرے انسانوں کے بارے میں رائے تک بدل جاتی ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان جو عصر حاضر میں بھی موجود ہیں اور ان میں سے کچھ اس دنیا سے چلے گئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو، بےنظیر، عمران خان ان لوگوں کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تو پھر ان کے سوچنے کا انداز اتنا بڑا کیوں ہے؟ اتنا مختلف کیوں ہے؟ کیونکہ ان کی شخصیت کے اوپر بڑے ماحول کی واضح اور گہری چھاپ ہے یہاں اس ملک میں اس معیار کے بزنس مین، سائنس دان، سیاستدان، فلاسفر کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ حالانکہ ٹیلنٹ کی بھرمار جتنی اس ملک میں ہے شاید ہی دنیا میں کہیں اور موجود ہو۔ یہاں ماحول اتنا بڑا اور اس معیار کا نہیں ھے۔
صرف ماحول کے بدل دینے سے بڑی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر بروس لپٹن نے biology of belief جیسی معرکۃ الآراء کتاب لکھی۔ ڈاکٹر بروس لپٹن نے اس کتاب میں نہایت شاندار نقطہ اٹھایا ہے۔ فرض کریں کہ ایک انسان کے جینز میں کینسر کا ایک جین آیا ہے اب آگے جاکر اس انسان کو زندگی میں کینسر ہو گا یا نہیں اس بات کا مکمل انحصار اس بات پر ہے کہ کینسر کے اس جین کو پنپنے کے لئے سازگار ماحول ملتا ہے یا نہیں؟ جین کو وہ ماحول ہی نہ ملے تو وہ کبھی کینسر کا باعث نہیں بن سکتا۔ بلکل اس طرح انسان بہت سے امکانات کے ساتھ اس دنیا آتا ہے۔ یہ امکانات ہی کی دنیا ہے۔ اگر انسان کو بہتر ماحول نہ ملے تو اس کے کچھ بڑا اور بہتر کرنے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ تیسری چیز جو انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے وہ یہ کہ اس کی اپنی پرسنیلٹی ٹائپ کیا ہے؟ ایک والدین کے چار پانچ بچوں کے رنگ، شکل تو ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔ ان کو گھر میں ماحول بھی ایک جیسا ہی ملتا ہے۔ لیکن ان کے اندر کی دنیا ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ان کے سوچنے کا انداز ایک دوسرے سے 180 درجے پر ہوتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی دو انسان برابر نہیں۔ حتی کہ ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے، ایک ہی چھت کے نیچے ایک سا ماحول ملنے کے باوجود بھی دو انسان کتنا مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا رائٹ برین ایکٹیو ہے۔ کسی کالیفٹ برین زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔ کوئی دھیمے مزاج کا ہے، کسی کا لہجہ سخت ہوتا ہے۔
فلسفہ اور نفسیات میں یہ بحث صدیوں سے جاری ہے۔ نیچر کے ماہرین اپنے دلائل دیتے ہیں، نرچر کے ماہرین یعنی behaviorists اپنے دلائل دیتے ہیں۔ ان کی بحثوں کے درمیان جنیٹک انجینئرنگ دن بدن نئے راز کھول رہی ہے۔ آگے چل کر جینیٹکس کی ڈی کوڈنگ بہت سے نئے راز افشا کرے گی۔ جینز کا پریشر، ماحول کا اثر، اپنی انفرادیت، اس کے بارے میں بہت سا علم اکٹھا کیا جا چکا ہے۔ اس پر مزید اور بہتر کام بھی ہورہا ہے۔ لیکن پھر بھی قدرت نے بہت کچھ اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ انسان آخر انسان ہے۔