Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umar
  4. Naya Punjab

Naya Punjab

نیا پنجاب

اگست کا آخری ہفتہ تھا۔ پاکپتن کے روڈ پر رات چار بجے ایک گاڑی تیز رفتاری سے گزر رہی ہوتی ہے کہ راستہ میں پولیس ناکہ آتا ہے۔ پولیس کے اے ایس آئی ان سے تلاشی کا پوچھتے ہیں تو موصوف آگے سے اکڑ، گھمنڈ اور بدمعاشی کا روپ دے کر سنگین نتائج کی دھمکی دے کر نکل جاتا ہے۔ وہ اے ایس آئی اپنے ڈی پی او کو سارے واقعہ کا احوال بتاتا ہے جس کے بعد ڈی پی او اے ایس آئی کو اس کی ذمہ دارانہ کارگردگی جاری رکھنے کا کہتا ہے۔ اس ڈی پی او کو کیا پتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟

رات چار بجے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو فون آتا ہے کہ اگلی صبح سے پہلے وزیر اعلیٰ کے دفتر پہنچ جائے ورنہ آپ ڈی پی او نہیں رہیں گے۔ اس کے علاؤہ بھی اس ڈی پی او کو کئی جگہ سے فون آئے۔ ڈی پی او رضوان گوندل جب وزیر اعلیٰ آفس پہنچے تو وہاں جاکر ان کو پتا لگا کے وزیراعلیٰ آفس کے اندر ایک شخص جس کا نام احسن جمیل گجر ہے اس سے بڑے گھمنڈ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آپ فوراََ خاورمانیکا کے گھر جائیں اور ان سے معافی مانگے اگر آپ نے معافی نہیں مانگی تو آپ اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔

اب ڈی پی او واپس چلا جاتا ہے۔ اگلے دن کون دل کو آر پی او آفس سے فون آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کا کا ڈی پی او پاکپتن سے تبادلہ ہو چکا ہے۔ جس کے بعد وہ بھی ہکہ بکہ رہ جاتے ہیں اس کے بعد یہ معاملہ بہت ٹی وی اسکرینوں کی زینت بن گیا اور دیکھتے دیکھتے دو لوگ پاکستانیوں میں جاننے لگے ایک تھا احسن جمیل گجر اور ایک تھی فرح خان۔ اعتز از واقعہ کا نوٹس سپریم کورٹ میں لیا اس کی ایک لمبی تفصیل ہے وہ آپ کو معلوم ہو گی۔

میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا فرح گوگی کے بارے میں۔ جی ہاں خاتون اول کے آبائی گاؤں حجرہ شاہ مقیم کی رہائشی یہ خاتون لیگی ایم پی اے چودھری اقبال گجر کی بہو اور خاتون اول کی نہایت ہی قریبی دوست ہیں۔ جس دن سے ان کے شوہر احسن جمیل گجر اور ان کا کردار ڈی پی او کیس میں سامنے آیا اسی دن سے میں تشویش میں آگیا تھا کہ یہ آگے پنجاب میں بہت سے گل کھلائیں گے۔ تقریبََا وہی ہوا آج میڈم فرح خان کی کرپشن کی متنازع گواہیاں آ رہی ہیں جس سے آپ اتفاق بھی کرسکتے ہیں اور انحراف بھی لیکن جھٹلانا بہت مشکل ہوگا۔

تحریک انصاف کے سابق سینیئر صوبائی وزیر علیم خان اور چودھری سرور اور یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ گلے میں فرح خان کا کردار ہوتا تھا اور تقریباََ چار سے لے کر پانچ کروڑ تک ان تبادلوں کی قیمت ہوتی تھی۔ ابھی تک پنجاب حکومت کی جانب سے کوئی اس طرح کی اسٹیٹمنٹ سامنے نہیں آئی جس سے وہ ان چیزوں کو جھٹلا سکے۔ ان الزامات کو بھی پورا سچ نہیں مان لیا جائے گا جب تک ثبوت نہ ہو۔ مشکوک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوں کہ جب ایک حکمران جماعت کا سینئر وزیر اور گورنر ایسے معاملات کی گواہی دے گا تو اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

جہاں تک پنجاب میں تبدیلی کی بات ہے، ہے تو سب سے زیادہ تبدیلی تونسہ شریف کے عثمان بزدار کے حلقے اوکاڑہ کی فرح خان کے بینک اکاؤنٹ میں ہی دیکھ رہی ہے باقی پورے پنجاب میں کم۔ عمران خان پنجاب میں کئی دفعہ اپنی بھرپور توجہ کے باوجود پارٹی پالیسی کو بھرپور طریقے سے اپلائی نہیں کرسکے جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔ علیم خان گروپ، ترین گروپ اور چھینا گروپ کی صورت میں اب علیم خان گروپ اور اور ترین گروپ باقاعدہ طور پر نون لیگ کے اندر شمولیت اختیار کر چکا ہے۔

آج کل کے نئے پنجاب کے حوالے سے گفتگوکی جائے تو چوہدری پرویز الہٰی اپنے آپ کو خود وزیراعلیٰ سمجھ چکے ہیں اور سول ڈکٹیٹر بھی جس سے وہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بلاوجہ تاخیر کی جا رہی ہے ان چیزوں سے نہ کہ ان کی اپنی خاندانی روایت کا استحقاق کو رہا ہے اور ان کی اپنی سبکی بھی۔ ہر طرح سے کون نیا آئین کی دھجیاں اڑانے پر اور "نیا پنجاب" بنانے پر پرویز الہیٰ خراج تحسین کے مستحق ہے۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed