Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Ye Bhi Pakistan Hai (1)

Ye Bhi Pakistan Hai (1)

یہ بھی پاکستان ہے (1)

آج سے تقریبا دو ہفتے پہلے میرا موبائل فون خراب ہوگیا۔ اس کی سکرین کام کرنا چھوڑ گئی۔ اس لائن سے متعلقہ ایک دوست کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ موبائل فون کا پینل خراب ہوگیا ہے کسی بھی شاپ پر جا کر اسے تبدیل کروا لو اور اس کام پر تین سے دس ہزار روپے کا خرچہ آئے گا۔

میں ایک موبائل مال میں موجود شاپ پر چلا گیا۔ چھوٹی سی دکان تھی۔ دکان پر موجود بیس، اکیس سال کے لڑکے نے بھی وہی بات کی کہ موبائل فون کا پینل خراب ہوگیا ہے نیا ڈالنا پڑے گا لیکن میں اسے کھول کر چیک بھی کر لیتا ہوں۔ وہ موبائل فون کھول کر اپنے اوزاروں کی مدد سے اسے چیک کرنے لگا۔ میں شاپ کے باہر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تقریبا پانچ منٹ کے بعد وہ لڑکا باہر آیا اور اس نے یہ بتا کر ایک خوشگوار سرپرائز دیا کہ آپ کا فون بالکل صحیح ہے۔ معمولی سی نمی اس کے اندر چلی گئی تھی۔ میں اس کو بند کرکے آن کرکے آپ کے حوالے کرتا ہوں اور پھر اس نے ایسا ہی کیا اور مزدوری کے تھوڑے سے پیسے لے لیے۔

میں نے اس کے بعد اپنا تعارف کروایا کہ میں یونیورسٹیز میں پڑھاتا ہوں، ٹرینر ہوں اور کالم لکھتا ہوں۔ یہ سن کر اس نے اور زیادہ عزت کی۔ یاد رہے کہ میں نے اپنا تعارف کام ختم ہونے کے بعد کروایا تھا اور اس نے ایک اجنبی کسٹمر کے ساتھ اس ایمانداری کا مظاہرہ کیا تھا حالانکہ وہ چاہتا تو پانچ سے سات ہزار کا بل بنا سکتا تھا۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے فادر کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا وہ ایجوکیشن کے پیشے سے وابستہ تھے اور ان کی بھی کچھ تحریریں اخباروں میں شائع ہوئیں۔ اس کے والدین نے اس کی پرورش رزق حلال پر کی تھی اور یہی چیز اس کی تجارت، اخلاق اور شخصیت سے ظاہر ہو رہی تھی۔

جی ہاں، یہ بھی پاکستان ہے۔

یہ لڑکا اکیلا ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کر رہا بلکہ پاکستان میں ایسے لوگ میلینز کی تعداد میں موجود ہیں جو امید کی بات کرتے ہیں اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ویژنری ہیں اور اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے حصے کی اینٹیں لگا رہے ہیں۔ بقول شاعر

سورج کی تمازت میں وہ شبنم کی طرح ہیں

اس کالم میں یوم آزادی کے حوالے سے میں نے ایسی ہی سچی کہانیوں کا انتخاب کیا

تو چلیں اگلے واقعے کی بات کرتے ہیں۔

***

یہ پرویز مشرف کے دور کی بات ہے دہشت گردی کا ناسور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا۔ سوات کے نیشنل میوزیم کا عملہ دن میں اپنا کام ختم کرکے گھر واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ دہشت گردوں کا ایک مسلح گروہ میوزیم کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میوزیم میں موجود قیمتی اور نایاب نوادرات، جن میں سے بیشتر کا تعلق گندھارا کی بدھا تہذیب سے تھا کو تباہ کیا جائے۔ میوزیم کا عملہ ان سے درخواست کرتا ہے کہ آپ یہ کام نہ کریں۔ دہشت گردوں کی آنکھوں میں خون سوار ہوتا ہے اور وہ سختی سے عملے کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گفتگو جاری رہتی ہے، جدید آٹومیٹک اسلحہ نکالا جاتا ہے اور یہاں پر ایک حیران کن واقعہ پیش آتا ہے۔ میوزیم کا عملہ ان دہشت گردوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ میوزیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام ہماری زندگیوں میں نہیں ہو سکتا آپ پہلے ہم سب کو قتل کر دیں اور اس کے بعد اپنا کام کریں۔

دہشت گردوں کی عقل حیران تھی کہ میوزیم کا عملہ جس کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی بدھا کے نوادرات کو بچانے کے لیے اپنی جان کیوں دینا چاہ رہا ہے؟ وہ عملے کو دھمکاتے ہیں ان کے سینے پر اسلحہ رکھ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے وہ بہادر سپوت اپنی جگہ چھوڑنے سے انکار کر دیتے ہیں اور دہشت گرد ناکام واپس چلے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سابق سفیر حسن حبیب نے یہ سچا واقعہ میرے ساتھ شیئر کیا اور بتایا کہ ثاقب صاحب سوئٹرز لینڈ میں گندھارا ایگزیبیشن کے حوالے سے ایک تقریب میں اسی ٹیم کے کچھ لوگوں کو بلایا گیا اور ہزاروں شرکاء کے سامنے جب یہ واقعہ بیان کیا گیا تو دنیا بھر سے موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے سر احترام سے جھکے ہوئے تھے۔

منیر نیازی یاد آگئے

روشنی در روشنی ہے اس طرف
زندگی در زندگی ہے، اس طرف

"یہ بھی پاکستان ہے"۔

***

جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال چشتی نامی درویش کو کتابوں سے عشق تھا۔ میرے بہت قریبی دوست تھے۔ ایک بک ڈپو کے مالک تھے کہ کتابوں کا عشق ان کو لائبریری کی طرف لے آیا۔ ایک کتاب سے شروع ہونے والے اس سفر میں پانچ سال پہلے ان کی وفات کے وقت تقریباً پندرہ ہزار کتابیں موجود تھیں۔ ہر سنجیدہ موضوع پر آپ کو کتاب اس لائبریری میں ملتی تھی۔ سینکڑوں مصنفین کی تصانیف سے اس لائبریری کو آویزاں کیا گیا تھا اور ممبرز کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ خود بھی بچوں کے ادب کے حوالے سے کتابیں لکھیں۔

اس لائبریری سے فیض حاصل کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ بہت وسیع حلقۂ احباب، ملنے والے کہتے اقبال صاحب یہ کیا ایک، دو روپے کرائے پر کتابیں دیتے ہو کوئی اور کام کرو۔ انہوں نے کہا کتابوں کی خوشبو میں ہی مجھے آرام ملتا ہے۔ قرض لے کر اپنے اس عشق کی قیمت ادا کرتے رہے۔ سادہ لباس، درویشانہ طرزِ زندگی، لیکن ان کتابوں کو پڑھ کر آج ہزاروں لوگ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔

اپنے آخری وقت شاید انہوں نے یہی خواہش کی ہو۔

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم تو محبت کی کہانی میں مرے ہیں

"یہ بھی پاکستان ہے"۔

یہ مہر و ماہ یہ تارے یہ بام ہفت افلاک
بہت بلند ہے ان سے مقام آزادی

ہمارے زور سے زنجیر تیرگی ٹوٹی
ہمارا سوز ہے ماہ تمام آزادی

ترنم سحری دے رہا ہے جو چھپ کر
حریف صبح وطن ہے یہ شام آزادی

(فراق گورکھپوری)

(جاری ہے)

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza