Kamyabi Ki Seerhi, Career Counselling Kyun Aur Kaise?
کامیابی کی سیڑھی، کیریئر کونسلنگ کیوں اور کیسے؟
کامیابی کی تلاش میں ایک نوجوان دن رات محنت کرتا ہے۔ اسے پتہ چلتا ہے کہ سامنے موجود بلند دیوار کو پار کرنے پر کامیابی اس کی منتظر ہوگی۔ وہ دیوار کے ساتھ ایک سیڑھی لگاتا ہے۔ اپنی محنت کو مزید بڑھاتا ہے۔ نئی سکلز سیکھتا ہے۔ ڈبل جاب کرتا ہے۔ اور دس سال کی محنت کے بعد 40 steps رکھنے والی سیڑھی کے 28 steps مکمل کر لیتا ہے۔ لیکن اس بلندی پر آکر اس کو پتہ چلتا ہے کہ اس نے سیڑھی غلط دیوار کے ساتھ لگائی ہوئی ہے۔ اس کی حقیقی کامیابی جس دیوار کے پیچھے چھپی ہوئی تھی وہ تو مخالف سمت میں واقع ہے۔ وہ نوجوان جو اب 35 سال سے زیادہ عمر کا ہو چکا ہے کیا اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ سیڑھی سے نیچے اترے اسے دوسری دیوار کے ساتھ لگائے اور دوبارہ نئے سرے سے اپنا کیریئر شروع کرے؟ یقینا یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کے نامور کیریئر کونسلر رضا عباس صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دھیمی آواز میں کامیابی کا یہ گہرا فلسفہ بیان کر رہے تھے۔ لاسٹ سنڈے ان کے ساتھ گزرا ہوا دن سوچ کے نئے دریچے ذہن میں روشن کر گیا۔
اوپر نوجوان کی کہانی آپ نے پڑھی! ہم میں سے 90 فیصد لوگ اس میں اپنےآپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے کیریئر کے درمیان آکرآپ کو اپنے passion کا پتہ چلتا ہے، جو آپ کی موجودہ جاب سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور اب آپ کے پاس یہ آپشن نہیں ہوتا کہ نئے سرے سے اپنے passion کے مطابق ایک نیا کام شروع کیا جائے۔
میں خود مائنڈ سائنسز اور سائیکالوجی کے شعبوں میں کام کرتا ہوں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے 30 سال کے بعد جاکر پتہ چلا کہ میرے اندر پیدائشی طور پر اس شعبے کا ٹیلنٹ موجود ہے۔ کیونکہ میرا اٹھنا بیٹھنا مضبوط، ہائی وژن کے لوگوں میں تھا۔ اس لیے میں 30 سال کی عمر میں اس شعبے میں آنے کے باوجود کامیاب ہوگیا۔ اس سٹوری پر کسی اور کالم میں تفصیل سے بات کریں گے۔
رضا عباس، آپ کیریئر کونسلنگ کے منفرد شعبے میں کیسے آگئے؟ میرے پوچھے ہوئے سوال کے جواب میں ان کی مخصوص مسکراہٹ چہرے پر آگئی۔
اپنی زندگی کےمختلف زاویے کھولتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بچپن میں ہی وہ اپنے والدین کے ساتھ مصر چلے گئے اور ابتدائی سکولنگ قاہرہ کے ایک انٹرنیشنل سکول میں حاصل کی۔ مختلف قومیتوں کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے اس عمل نے ان کی سوچ میں وسعت اور گہرائی پیدا کی۔
انہوں نے بتایا پاکستان واپسی پر ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران لیڈرشپ، ٹائم، مینجمنٹ اور کمٹمنٹ میری شخصیت کی پہچان بنے۔
1999 میں رضا صاحب نے یونیورسٹی آف ایری زونا میں داخلہ لیا۔ امریکہ کی اس مشہور یونیورسٹی سے انہوں نے کمیونیکیشن اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ اسی یونیورسٹی میں سات سالوں کے دوران کیریئر کونسلنگ میں انہوں نے مہارت حاصل کی۔
امریکہ میں گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دوران تعلیم انہوں نے گروپ ڈسکشن، conflict مینجمنٹ اور decision میکنگ سیکھی۔
یونیورسٹی میں 100 سے زیادہ ملکوں کے طالب علم موجود تھے اور ہاسٹل میں ان کے روم میٹس میں تائیوان، چین، امریکہ اور نائجیریا کی طالب علم شامل تھے۔ اس تجربے نے انہیں سکھایا کہ کیسے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ harmony سے رہا جاتا ہے۔ Effective کمیونیکیشن کی صلاحیت بھی یہیں پر نکھر کر سامنےآئی۔
ایری زونا کے کیریئر سروس سینٹر میں ویلنٹیر volunteer کے طور پر کام کیا۔ سینکڑوں لوگوں کے mock انٹرویوز کیے۔ مینٹورنگ اور کیریئر کونسلنگ کی سہولیات فراہم کی اورfastathon کے نام سے قائم ایک پلیٹ فارم سےغیر مسلم سٹوڈنٹس کو بھی روزے رکھنے کی طرف مائل کیا۔
دوران تعلیم مختلف سکالرشپس حاصل کی اور پاکستان کی پہچان بن کر وہاں پر کام کرتے رہے۔
پاکستان واپسی کے چیلنجنگ فیصلے کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ میرے سوال کے جواب میں بتایا، اپنے والد کی خدمت کرنا اور پاکستان کے لیے کچھ بڑا کرناان کی ترجیحات میں شامل تھا۔
پرویز مشرف صاحب کے دور میں Pathway Consulting کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی اور پاکستان کے سوفٹ امیج کو مضبوط کرنے کے لیے 20 سے زیادہ ملکوں کے دورے کیے۔
دنیا میں کیریئرکونسلنگ کے مستند اداروں جن میں نیشنل کیریئر ڈویلپمنٹ ایسوسییشن (NCDA)، ایشیا پیسیفک کیریر ڈویلپمنٹ اور انٹرنیشنل ایسوسییشن فار ایجوکیشن اینڈ وکیشنل گائیڈنس (IAEVG) شامل ہیں، کے پلیٹ فارم پر کیریئر کونسلنگ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے NCDA اور ایشیا پیسیفک کیریئر ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن سے دو بین الاقوامی کیریئر ڈویلپمنٹ ایوارڈز حاصل کیے - پہلی بار کسی پاکستانی نے نامور عالمی ایسوسی ایشنز سے یہ عالمی اعزازات حاصل کیے۔ ان کا نام عالمی بیسٹ سیلر بک "دی ورلڈ بک آف ہوپ" میں بھی ہے۔
رضا عباس نے پاکستان میں ٹیچرز ٹریننگ پروگرام، parental کونسلنگ، evidence base hope اور کیریئر مینجمنٹ کے شعبوں کو نئی بلندی عطا کی۔
کیریئر کونسلنگ کس عمر میں سٹارٹ کی جائے؟ اس سوال کے جواب نے ذہن کو نئی وسعتوں کی طرف گامزن کیا۔
رضا عباس نے زندگی کے مختلف مرحلوں میں اس کی اہمیت پر زور دیا۔ یقینا اس کو سکول لیول پر شروع ہونا چاہیےجسے انہوں نے کیریئر پلاننگ کا نام دیا۔ کلاس 8-10 اور انٹر کے طالب علم کو پتہ ہو کہ اس نے زندگی میں کیا کام کرنا ہے۔
اس کے بعد کیریئر ڈیویلپمنٹ کے شعبے میں نوجوانوں کو آگاہی فراہم کی جائے۔ اگلا مرحلہ کیریئر مینجمنٹ کا آتا ہے کیسے سائنٹیفک طریقے سے اسے شعبے میں آگے بڑھا جائے۔ Sustainableکیریئرز کون سے ہیں۔ 2024 اور آنے والے decade میں کون سی سکلز پر کام کیا جائے۔
گورنمنٹ اور نان گورنمنٹ اداروں کے ساتھ مل کر کیریئر کونسلنگ کے ان تمام شعبوں میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سائبر سکیورٹی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ڈفرنٹ آن لائن پلیٹ فارمز پر ملین (Millions)کے حساب سے مواقع دستیاب ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر صحیح شعبے کا انتخاب آپ کی حقیقی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔
کوریا اور سکینڈے نیوین ممالک میں بچوں کا یہ civic right مانا جاتا ہے کہ انہیں کیریئر کونسلنگ مہیا کی جائے کیریئر ایجوکیشن ایکٹ کے نام سے یہ بہت سے ممالک میں ان کے آئین میں شامل ہے۔
رضا عباس صاحب مشہور ادارے IOBM میں Incubation ڈیپارٹمنٹ کو لیڈ کر رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کے منصوبوں میں کیریئر کونسلنگ کو ہر پاکستانی کی پہنچ میں لانا شامل ہے۔
پی ٹی وی اور دیگر پرائیویٹ چینلز پر ذہن سازی کے پروگرام لانچ کرنا ان لائن پلیٹ فارم کے ذریعے کیریئر کونسلنگ کی بیسک سے ایڈوانسڈ لیول انفارمیشن لوگوں تک پہنچانا ان کے پلانز میں شامل ہے۔
رضا عباس صاحب کارپوریٹ ٹریننگ کے علاوہ 1 ٹو 1 سروسز بھی آفر کرتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب کیریئر کونسلنگ پاکستان کے ہر بچے کا civic right تسلیم کیا جائے گا اور ہائی سکول کی تعلیم کے دوران ہی ہر سٹوڈنٹ یہ جانتا ہوگا کہ اس نے زندگی میں کیا کرنا ہے۔
اختتامی کلمات کہتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک بڑا خواب جگمگاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آپ لوگ گوگل پر رضا عباس کیریئر کونسلنگ سرچ کریں تو ان سے رابطے کی تفصیلات اپ کو مل جائیں گی آپ ان کو اس ای میل ایڈریس پر بھی ٹچ کر سکتے ہیں [email protected]۔