Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab
ٹائم میگزین اور الیاس قادری صاحب
ٹائم (TIME) میگزین کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے میگزینز میں ہوتا ہے۔ یہ ایک امریکی ادارہ ہے جس کی لاکھوں کاپیاں ہر مہینے دنیا بھر میں فروخت ہوتی ہے۔ ٹائم میگزین ہر سال دنیا بھر کے 100 طاقتور، بااثر اور کامیاب لوگوں کی ایک فہرست شائع کرتا ہے جسے دنیا بھر میں خوب توپذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ ان سو افراد کی لسٹ میں کبھی کبھار کسی پاکستانی کا نام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ ہر بار لسٹ میں جگہ بنانے والے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق سیاست، فنون لطیفہ، انسانی حقوق یا سماجی خدمات کے شعبے سے ہوتا ہے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ اس لسٹ میں کبھی مولانا الیاس قادری صاحب کا نام کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ حالانکہ الیاس قادری صاحب کی کامیابی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ہے۔ ان کی جانب سے 1981ء میں قائم کی گئی دعوت اسلامی نامی تنظیم آج 40 سال بعد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں اس تنظیم کے مدرسے قائم ہوچکے ہیں اور مولانا الیاس قادری صاحب ان مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کیلئے پیر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ پیر بھی ایسا کہ جس کی عقیدت میں ان کے شاگرد یا مرید ہر حد تک جا سکتے ہیں اور ان کے پیر کی کسی بھی بات سے اختلاف کرنے والا ان کے نزدیک گستاخ اعلیٰ تصور ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق الیاس قادری صاحب کے مریدین کی تعداد 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اتنی بڑی فین فالونگ ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی انہیں 100 بااثر ترین افراد کی لسٹ میں شامل نا کرے تو یہ قادری صاحب سے زیادتی ہوگی بلکہ اس عمل کو اگر اسلام کے خلاف سازش نا سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے۔ 3 کروڑ مریدین کی افرادی قوت تو ایک طرف ان 3 کروڑ جاں نثاروں سے حاصل ہونے والے چندوں کا بھی کوئی حساب کتاب موجود نہیں۔
ایک دفعہ الیاس قادری صاحب کو ٹی وی پر دیکھا تو فرما رہے تھے کہ 1500 روپے چندہ ہر مرید ان کی تنظیم کو لازماً ادا کرے۔ اگر ان کی بات کو ہی بنیاد بنایا جائے تو بھی یہ چندے آرام سے 500 کروڑ روپے کی نفسیاتی حد کو چھو جاتے ہیں اور میں مکمل طور پر پُر امید ہوں کہ حکومت کا ان چندوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا اور "دین کی حفاظت" کیلئے ان چندوں کو نیٹ ٹیکس میں لانے کا سوچنا بھی گناہ کبیرہ تصور ہوتا ہوگا۔ ویسے بھی ٹیکس دینے کیلئے تنخواہ دارطبقہ غلام کی صورت میں جو موجود ہے۔
باوجود اس کے کہ الیاس قادری صاحب کی مذہبی تعلیم واجبی سی ہے مگر پھر بھی ان کے چاہنے والے آنکھیں بند کرکے ان پر اندھا اعتبار کرتے ہیں۔ قادری صاحب نے اسلام کی خدمت تو کیا ہی کرنی تھی بلکہ الٹا اسلام میں بے پناہ بدعتوں کا اضافہ ضرور فرما دیا۔ کھیرہ کاٹنے کا شرعی طریقہ اور کیلوں کو کارخ مدینہ شریف کی طرف کرنے کو تو چھوڑ ہی دیجئے، اسلام میں ایک نئی نماز "نماز غوثیہ" کے نام سے بھی متعارف کروا چکے ہیں۔ جبکہ اس نماز کا اسلام سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
قادری صاحب دینی مسائل کو بتاتے وقت قرآن و حدیث سے دلائل لینے کی بجائے اپنے خود ساختہ بابوں سے دین ثابت کرتے رہتے ہیں۔ اپنے بابوں کو نعوذ باللہ صحابہ کرام کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ فرضی کہانیوں جن کا نا کوئی سر ہوتا ہے نا کوئی پیر۔۔ ان کو اسلام کے خاتے میں ڈال کر اپنے تئیں عالم بننے کا شوق پورا فرماتے رہتے ہیں۔
ان کے مریدین ان کو وقت کا بہت بڑا درویش ثابت کرنے میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے، ان کے مریدین اپنے پیر سے بہت سی کرامات بھی جوڑتے ہیں جن میں قادری کے صاحب کی جانب سے کھائے جانے والے گوشت کی ہڈیوں کا 20 سال بعد بھی صحیح سلامت ہونا اور قادری صاحب کا ایک ہی وقت پر دو مختلف جگہوں پر موجود ہونا تو ورلڈ فیمس ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ایک دفعہ لائیو شو میں ان کے مرید نے لائیو کرامت دکھانے کی فرمائش کی تو برا مان گئے اور لائیو کرامت دیکھنے کی چاہ رکھنے والے مرید کو گستاخ کہتے کہتے رہ گئے۔
بات لائیو شو کی چل ہی پڑی ہے تو ایک اور قصہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ الیاس قادری صاحب کے کسی مرید نے بھرے مجمع میں پوچھ لیا کہ حضور جسم میں درد رہتا ہے اس کا کچھ کیجیے تو الیاس قادری صاحب فرمانے لگے کہ جسم کے جس حصے میں درد ہو رہا ہو وہاں ہر ہاتھ رکھ کر پڑھے "داتا صاحب کی گھوڑی، وہی اندھیری رات"۔۔ تو درد چلا جائے گا۔
اب پتا نہیں اس مرید کو اس نسخہ کیمیا سے کوئی فائدہ حاصل ہوا کہ نہیں مگر خود الیاس قادری صاحب کا یہ حال ہے کہ نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور کھانا ٹیبل پر بیٹھ کر تناول فرماتے ہیں۔ ان کے احباب نے اس عمل کی وجہ پوچھی تو الیاس قادری صاحب نے درد بھری آواز میں فرمایا کہ گھٹنے میں درد رہتا ہے اسلئے ڈاکٹر صاحب کی نصیحت پر عمل کر رہا ہوں۔ قادری صاحب نے خود کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر داتا صاحب کی گھوڑی کو یاد فرمانے کی زحمت گوارہ نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ چورن صرف مریدین کو ہی بیچا جاسکتا ہے جبکہ اصل زندگی میں اس کا جسمانی درد مٹانے سے کوئی تعلق نہیں۔
آج الیاس قادری صاحب لائیو ٹی وی پر کوئی کرامت نہیں دکھا سکتے، اپنے جسم کی درد کو ختم کرنے کیلئے بھی ڈاکٹر کی دوائیوں کے محتاج ہے۔ مگر جب کل یہ اس دنیا سے پردہ فرما جائیں گے تو لوگ ان کی قبر کو عبادت گاہ میں بدل دیں گے، انہیں مشکل کشا کا درجہ عطا کردیا جائے گا۔ کل ان کی کرامات کے قصے سنائے جائیں گے، ان کی چارپائی کو ہوا میں معلق بتایا جائے گا اور لوگوں سے ان کے نام پر چندے اکٹھے کیے جائے گے۔ ان چندوں سے دنیا بھر میں ایمپائرز کھڑی کی جائے گی اور عام مریدین بس۔۔ داتا صاحب کی گھوڑی، وہی اندھیری رات کا راگ الاپتے رہ جائیں گے۔