Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Freelancing

Freelancing

فری لانسنگ

پاکستان کا شمار اُن خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان میں 64 فیصد لوگ 30 سال سے کم عمر کے ہیں۔ مگر پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اتنی بڑی نوجوان نسل ہونے کے بعد بھی پاکستان ان نوجوانوں کو ملکی ترقی میں استعمال نہیں کر پارہا۔ نوجوانوں کیلئے نہ کوئی ملکی سطحی پر کوئی پلان بنایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری پالیسی ہے۔

ہر سال لاکھوں نوجوان گریجوایشن اور ماسٹر کی ڈگری لے کر کالجوں یا یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں مگر آگے ان کیلئے کوئی سکوپ ہے، نہ کوئی جاب اور نہ ہی کوئی مستقبل ہے اور ہمارا تعلیمی نظام بھی ایسا ہے کہ ماسٹرز کیا پی ایچ ڈی ہولڈر بھی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ایک بجلی کا سوئچ تک نہیں ٹھیک کر سکتا۔ تعلیمی اداروں میں ڈگری کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلئے جو لوگ پڑھائی سے فارغ ہوتے ہیں ان کی بھی پہلی ترجیح صرف ڈیسک جاب ہی ہوتی ہے۔

سرکاری ادارے ہرسال لاکھوں بچوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکتے اور پرائیویٹ اداروں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں ہرسال اتنے لوگ پرائیویٹ اداروں میں اپلائی کرتے ہیں کہ ان کیلئے بھی سب کو روزگار مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا پرائیویٹ اداروں میں سیلریز کے نام پر جو مونگ پھلی دی جاتی ہے اس سے جاب کرنیوالوں کا اپنا خرچ ہی بہت مشکل سے پورا ہو پاتا ہے تو وہ گھر والوں کو کیا ہی سپورٹ کریں گے۔ جب یہ پریشان حال نوجوان سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر فری لانسنگ یا آن لائن ارننگ کے ایڈز دیکھتے ہیں یا ان نوجوانوں کے کے انٹر ویوز سنتے ہیں جنہوں نے فری لانسنگ سٹارٹ کی، پہلے ناکام ہوئے اور پھر مزید محنت سے کامیاب ہوگئے اور اب گھر بیٹھے لاکھوں کما رہے ہیں۔ تو ان نوجوانوں کے دل میں بھی گھر بیٹھے پیسا کمانے کی حسرت شدت سے انگڑائی لیتی ہے، ویسے بھی قسمت بدلنے کی چاہ تو سبھی میں ہوتی ہے۔

شاید یہ بات آپ کیلئے حیرانی کا باعث ہو کہ پاکستانی واقعی میں فری لانسنگ میں بہت نام کما چکے ہیں۔ پوری دنیا میں فری لانسنگ سروسز فراہم کرنے میں میں پاکستانی چوتھے نمبر پر اور ایشیاء میں شاید پہلے نمبر پر ہیں۔ اس معاملے میں ہم انڈیا سے بھی آگے ہیں اور پاکستانی ہر سال فری لانسنگ کے ذریعے قابل قدر زر مبادلہ بھی ملک کیلئے کمارہے ہیں۔ مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے اور تصویر کا دوسرا رخ وہی ہے جس میں ہم پاکستانیوں کا خاص نام ہے یعنی جھوٹ اور دھوکہ۔ نوجوانوں میں فری لانسنگ کو لیکر بڑھتے ہوئے شوق کو دیکھ کر رنگ برنگے لوگ مارکیٹ میں آچکے ہیں جو فری لانسنگ یا آن لائن ارننگ سکھانے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، چاہے ان کی خود کی اچیومنٹ صفر ہو۔ گلی گلی، کوچوں کوچوں میں فری لانسنگ سکھانے کے ادارے کھل چکے ہیں۔ اب ان اداروں میں فری لانسنگ کے نام پر جوسکھایا کیا جارہا ہے، یہ بھی اپنے آپ میں ایک مذاق ہےاور اوپر سے ان کی فیسیں سن کر انسان چکرا جائے۔

صرف فوٹو ایڈیٹنگ یا ویڈیو ایڈیٹنگ سکھانے کے 15 سے 20 ہزار کوئی کیسے چارج کر سکتا ہے جبکہ ہر فوٹو ایڈیٹنگ یا ویڈیو ایڈیٹنگ سافٹ ویئر ٹیو ٹریل (Tutorial) کے ساتھ مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور جس کے فری کورسز کے لیکچر یوٹیوب پر بھرے پڑے ہیں۔ کمپیوٹر کوڈنگ ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہےکمپیوٹر کوڈنگ میں C++، CSS، Python، Java Script اور HTML کے ساتھ ساتھ اور بہت سی کمپیوٹر کوڈنگ کی Languages ہوتی ہے جس کو سکھانے میں امریکہ جیسے ملک بھی سالوں لیتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک Language میں مہارت حاصل کرنے کیلئے کئی سالوں کی ریاضت درکار ہیں۔ لیکن پاکستان میں لوگ یہی کوڈنگ 4 مہینے میں سکھا نے کے دعویدار ہیں اور وہ بھی ان لوگوں کو جن کو کمپیوٹر آن آف کرنے کے بعد صرف کمپیوٹر میں فلمیں دیکھنے آتا ہے۔ اب پتا نہیں یہ لوگ کوڈنگ گھول کر پلا دیتے ہیں یا کسی طرح سے دماغ میں سیو کردیتے ہیں۔ اینڈرائڈ سسٹم دنیا کا مشہور ترین آپریٹنگ سسٹم ہے، اینڈرائیڈ سسٹم کی کوڈنگ بھی چند ماہ میں سکھانے کے دعوے کھلے عام کئے جارہے ہیں۔

Logo بنانا، یا پروفائل پکچرز کو Customize کرنا فری لانسنگ نہیں ہے۔ یہ دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دنیا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں آپ صرف اپنی کمپنی کا نام لکھیں تو وہ آپ کو آٹو میٹک لوگو جنریٹ کرکے دیدیں گی یا آپ اپنی تصویر اپ لوڈ کرکے اپنی مرضی سے اسے Customizeکر سکتے ہیں تو جو کام فری میں ہو رہے ہیں اس کیلئے کوئی پیسے کیونکر دے گا۔ بعض اکیڈیمیز میں کورسز کے آخر میں سٹوڈنٹس کو فائیور(Fiverr) یا اپ ورک(Up work) پر اکاؤنٹ بنا کر دیدیا جاتا ہے، جب ان پلیٹ فارم پر سٹوڈنٹس کو کام نہیں ملتا تو ان کی Gigsکو پروموٹ کروانے کیلئے الگ سے پیسے چارج کئے جاتے ہیں اور جب یہ سب کرکے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا تو سٹوڈنٹس کو کہا جاتا ہے کہ اور کوئی نئی اسکلز سیکھیں، آپ نے جو پہلے 6 ماہ کا وقت اور پیسے ضائع کیے ہیں وہ لا حاصل ہیں، ایک بار پھر سے اپنا وقت اور پیسا نئی اسکل سیکھنے میں خرچ کریں اور کام ملنے کی گارنٹی پھر بھی کوئی نہیں۔ کچھ عرصے بعد پہلے سے ہی پریشان نوجوان مزید مایوس ہو کر فری لانسنگ سے توبہ کرلیتے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ ایسی اکیڈمیز کیلئے چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی اپنائے، کوئی رولز اینڈ ریگولیشن مرتب کئے جائے جن کے مطابق صرف حکومتی سرٹیفائڈ ادارے ہی فری لانسنگ سکھاسکے اور فری لانسنگ کے کورسز بھی مکمل ذمہ داری کے ساتھ بنائے جائے تاکہ لوگوں کے وقت اور پیسے کا ضیاع نہ ہو۔ حکومت ٹیوٹا طرز پر سرکاری طور پر بھی ایسے اداروں کا قیام عمل میں لا سکتی ہےکہ جس سے غریب لوگوں کے بچے بھی استفادہ حاصل کرسکیں۔ حکومت فری لانسنگ کیلئے مزید آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ فری لانسنگ ایک انڈسٹری ہے اور اسے ایک انڈسٹری کے طور پر ہی ڈیل کیا جانا چاہیئے۔ پاکستانی نوجوان بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے اگر فری لانسنگ میں اتنا نام کماسکتے ہیں تو سوچئے حکومتی تعاون کے ساتھ وہ کیا کچھ نہیں کرسکتے۔

Check Also

Yar Adelaide Dekhte Hain

By Maaz Bin Mahmood