Dar Aur Muhabbat
ڈر اور محبت
محبت اور ڈر دونوں ایک دوسرے کی ضِد ہے۔ آپ کسی کو ڈرا کر خود سے محبت نہیں کروا سکتے اور نہ ہی آپ کسی محبت کرتے ہوئے اُس کے اندر ڈر جیسے خوفناک احساسات پیدا کرسکتے ہیں۔ محبت ایک خوبصورت احساس ہوتا ہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے جہاں تک کے کئی بار محبت اپنے عروج پر پہنچ کر عقیدت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے جبکہ ڈر اگر زیادہ دیرتک برقرار رہے تو اپنی افادیت کھو دیتا ہے، بے اثر ہوجاتا ہے اگر بے اثر نہ بھی ہو تب بھی ڈر وقت کے ساتھ ساتھ نفرت اور غصے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ہم جِس معاشرے میں جی رہے ہیں بد قسمتی سے وہاں بچپن سے لیکر بڑھاپے تک ہمیں صرف ڈرنا اور لوگوں کو ڈراکر رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ محبت سے لوگوں کے ساتھ پیش آنا اگر سکھایا اور بتایا بھی جاتا ہے تو بہت کم۔۔
گھروں میں والد کا خوف بچپن سے ہی بچوں کے دلوں اور دماغوں میں انڈیل دیا جاتا ہے، مائیں بچپن سے ہی بچوں کے غلطی کرنے پر اُنہیں باپ کے نام سے ڈرانا شروع کردیتی ہے اور اکثر اوقات تو باپ کو جذباتی طور پر اتنا بلیک میل کیا جاتا ہے کہ باپ کے پاس اپنے بچوں پر ہاتھ اٹھانے کے سِوا کوئی آپشن باقی نہیں بچتا۔ حالانکہ بچوں کو باپ سے پیار اور عزت کا درس دے کر بھی شرارتوں اور غلطیوں سے روکا جاسکتا ہے مگر یہ طریقہ چونکہ نادر ہے اور اس کی مثال ہمارے معاشرے میں کم ہی ملتی ہے اسلئے یہ طریقہ قطعاً استعمال میں نہیں لایا جاتا۔
مائیں بھی بچوں کو غلطی کرنے پر ڈانٹ کر یا سختی کرکے سمجھا سکتی ہے مگر نہیں۔۔ یہ نیک کام باپ کیلئے مخصوص کردیا جاتا ہے اور اِرد گِرد کے ماحول سے باپ کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اگر باپ سخت رویہ نہیں رکھے گا، اگر باپ کا ڈر نہیں ہوگا تو اولاد بِگڑ جائے گی۔ یوں بچے خصوصاً لڑکے جب جوان ہوتے ہیں تو اُن کی اپنی ماؤں سے دوستی اور اچھی انڈر سٹیندنگ ہو جاتی ہے جبکہ باپ سے وہ فاصلہ رکھنا شروع کردیتے ہیں، کئی کئی دن باپ کے سامنے نہیں جاتے اور کئی ایک معاملات میں تو نوجوان لڑکے باپ سے بات کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ وجہ بس وہی ایک کہ انہیں بچپن سے ہی باپ سے صرف ڈرایا گیا، محبت کرنا سکھایا ہی نہیں گیا اور ڈر ایک عرصے بعد اپنا اثر کھودیتا ہے۔
ڈر کا یہی ماحول سکول و کالجز سے ہوتے ہوئے ہمارے پرائیویٹ اور سرکاری اداروں تک کو اپنی تحویل میں لے چکا ہے۔ سکولوں میں ڈسپلن اور زیادہ مارکس حاصل کرنے کو بنیاد بنا کر ٹیچر کلاسز میں سختی برتتے رہتے ہیں چاہے سختی برتنے کی وجہ سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا جنازہ نکل جائے مگر ماں باپ اور لوگوں کی اکثریت یہی خیال کرتی ہے کہ جو زیادہ سخت ٹیچر ہوگا وہ اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اچھائی کا یہ میعار بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایک منطق یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ جس ٹیچر کا ڈر زیادہ ہوگا اُس کی کلاس اُتنا ہی اچھا پر فارم کرے گی۔ ایسی پرورش میں جب لوگ پڑھ کر کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو اُن کے اندر بھی لوگوں کو ڈرا کر رکھنے کا جنون سر پر سوار ہوجاتا ہے۔
پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں اگر کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو اپنے جونیئرز کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنانا شروع کردیتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر اپنے ماتحتوں کو سب کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مائیں بہنیں ایک کردی جاتی ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ اگر لوگوں میں ڈر نہیں ہوگا تو یہ کام نہیں کریں گے۔ میں نے اپنے سامنے یہ منظر دیکھا ہے کہ جونیئر نے اپنے سینئر کو سلام کیا اور سینئر نے انتہائی متکبرانہ انداز میں منہ دوسری طرف پھیر لیا وہ جونیئر بے چارہ اپنا منہ سا لیکر رہ گیا۔ اُس جونیئر کے چلے جانے کے بعد اُس سینئر سے اِس رویے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب پھر وہی کہ اگر سلام کا جواب دے دیتا تو اُسے میرا ڈر نہیں رہنا تھا۔ یہ ہے ہماری نفسیات کہ محبت اور خوش اخلاقی کو کمزوری کی علامت بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
ڈر کی یہی روش ہمارے مذہبی رہنماؤں میں حد درجہ پائی جاتی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اِن میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ساری دنیا میں لوگ اسلام کو اُس میں موجود محبت کے پیغام کی وجہ سے قبول کررہے ہیں۔ ساری دنیا میں آج بھی سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔ مگر آپ ہمارے مذہبی رہنماؤں کی تقریریں سُن لیں، جمعہ کے خطبات سُن لیں یا اِن سے گفتگو کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو لگے گا کہ خدا کی صرف ایک ہی صفت اَلقھَار ہے۔ آپ کے مرنے کے بعد اللہ پاک آپ کو ڈائریکٹ جہنم میں ڈالیں گے، جہاں فرشتے آپ کو سزائیں دینے پر مامور ہونگے اسی لئے اللہ سے صرف ڈرنا چاہیئے۔ ہمارے مولوی صاحبان چاہے کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہو، آپ کو اللہ پاک سے ڈرانے کا کام بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔
بالکل اللہ پاک سے ڈرنا چاہیئے، اِس سے کوئی بھی انکاری نہیں۔ پر کیا اللہ پاک سے صرف ڈرنا ہی چاہیئے۔ کیا اللہ سے محبت نہیں کرنی چاہیئے۔ اللہ پاک کی صفات تو الرحمٰن اور الرحیم بھی ہے اُن کے بارے میں اتنی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اللہ پاک تو انسانوں کو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے یہ بات تواتر کے ساتھ کیوں نہیں بتائی جاتی۔ اللہ پاک تو اتنا غفور و رحیم ہے کہ صرف راستے سے پتھر ہٹانے پر بھی جنت عطا کردیتا ہے۔ وہ تو ایسی ہستی ہے کہ جو اُس کو نہیں بھی مانتے، اُن کو بھی بے تحاشہ اور بے شمار رزق عطا کرتا ہے۔ تو کیا صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرانا ہی چاہیئے، کیا اللہ تعالی سے محبت کرنے کا درس نہیں دینا چاہیئے۔ ہمیشہ اللہ سے ڈرو یا اللہ کے ڈر کی وجہ سے یہ کام نہ کرو کہنا ضروری ہے کیا؟ اللہ سے محبت کرو یا اللہ کی محبت میں یہ کام نہ کرو بھی تو کہہ سکتے ہیں نا۔
اللہ پاک تو اتنی خوبصورت ہستی ہے کہ انسان سوتے ہوئے بھی اللہ کو پکارے تو اللہ پاک اپنے بندے کی پُکار سنتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی جو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ لوگوں کو صرف اللہ پاک سے ڈراتے رہنا ضروری تو نہیں۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے ڈر کی بجائے اللہ سے محبت کے جذبات بھی تو پیدا کئے جاسکتے ہے نا۔۔ مگر کیا کِیا جائے کہ ڈرنا اور ڈرا کر رکھنا ہمیں بچپن سے ہی سکھا دیا جاتا ہے اور ہم سب اِسے ایک وراثت سمجھ آنے والوں کو بِنا سوچے سمجھے منتقل کرتے رہتے ہیں۔