Justice Tariq Jahangiri, Article 209 Ba Muqabla Article 199
جسٹس طارق جہانگیری، آرٹیکل 209 بمقابلہ آرٹیکل 199

اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کی جانب سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعلیمی ڈگری کو جعلی قرار دیتے ہوئے ان کی بطور جج تقرری کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بظاہر عدلیہ کی "خود احتسابی"کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر آئینی اور قانونی تناظر میں یہ فیصلہ کئی بنیادی اور سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا غیر جانبدارانہ تجزیہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس پورے قضیے کا مرکزی آئینی سوال یہ ہے کہ کیا کسی حاضر سروس ہائیکورٹ جج کو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت ہٹایا جاسکتا ہے، جبکہ آئین نے ججوں کے احتساب اور معزولی کے لیے ایک مخصوص، واضح اور محفوظ طریقہ کار آرٹیکل 209 کے تحت فراہم کر رکھا ہے؟ یہ سوال محض تکنیکی نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی، ادارہ جاتی خودمختاری اور آئینی توازن سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 209 ججوں کو ایک خصوصی آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ، ہائیکورٹس یا وفاقی آئینی عدالت کے کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا، سوائے اس طریقہ کار کے جو خود اسی آرٹیکل میں درج ہے۔ اسی مقصد کے تحت بانیانِ آئین نے سپریم جوڈیشل کونسل جیسے آئینی ادارے کا قیام عمل میں لایا، تاکہ ججوں کے خلاف الزامات کا فیصلہ انتظامیہ، سیاسی دباؤ یا ماتحت عدلیہ کی بجائے ایک اعلیٰ اور غیر جانبدار آئینی فورم کرے۔
تاہم اس معاملے میں ایک قانونی مکتبِ فکر یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ اگر کسی شخص کی ابتدائی تقرری ہی دھوکے، جعل سازی یا بنیادی نااہلی پر مبنی ہو تو وہ فرد آرٹیکل 209 کے آئینی تحفظ کا اہل نہیں رہتا۔ اس مؤقف کے مطابق چونکہ ایسی تقرری غیر قانونی ہوتی ہے، اس لیے اسے آرٹیکل 199 کے تحت کووارنٹو رٹ کے ذریعے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرا اور بظاہر زیادہ مضبوط آئینی مؤقف یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی شخص آئین کے مطابق جج کا حلف اٹھا لیتا ہے، اس کی حیثیت مکمل طور پر آئینی ہو جاتی ہے۔ اس مرحلے کے بعد اس کی معزولی، احتساب یا نااہلی کا واحد آئینی راستہ آرٹیکل 209 ہی رہ جاتا ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم نہ کیا جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی آئینی حیثیت اور مقصد ہی غیر مؤثر ہو کر رہ جاتا ہے اور ہر جج کی تقرری مسلسل عدالتی عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔
بطور قانون کے طالب علمِ یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر ہر ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے ذریعے اپنے ہی حاضر سروس ججوں کی تقرری کالعدم قرار دینے لگے تو عدلیہ کے اندر آئینی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی توازن کیسے برقرار رہے گا؟ اس فیصلے کے بعد چند مزید اہم اور تشویشناک سوالات بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
اول، وہ متعلقہ بار کونسل جس نے مبینہ جعلی ڈگری کی بنیاد پر وکالت کا لائسنس جاری کیا، کیا وہ کسی احتساب سے بالاتر ہے؟ اگر ڈگری واقعی جعلی تھی تو یہ ناکامی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ریگولیٹری اداروں کی بھی ہے۔
دوم، آرٹیکل 175-Aکے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان، جس نے تمام چھان بین کے بعد تقرری کی سفارش کی، کیا اس کی ذمہ داری محض اخلاقی ہے یا اس فیصلے کے بعد اس کے طریقہ کار اور اسکرونٹی پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھیں گے؟
سوم، جسٹس طارق جہانگیری کی جانب سے بطور جج دیے گئے فیصلوں کا کیا بنے گا؟
چہارم: موصوف جج نے عہدے پر رہتے ہوئے جو تنخواہیں اور مراعات حاصل کیں، کیا انکو بھی واپس کرنا ہوگا جیسا کہ عطاء الحق قاسمی کے پی ٹی وی مقدمہ میں تنخواہیں و مراعات واپس کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔
اس ضمن میں قانون کا ایک معروف اور مستحکم اصول یعنی ڈی فیکٹو ڈاکٹرائن موجود ہے، جس کے تحت ایسے جج یا عہدیدار کے فیصلے کالعدم نہیں سمجھے جاتے جو بظاہر قانونی اختیار کے تحت فرائض انجام دے رہا ہو، تاکہ نظامِ انصاف میں انتشار اور قانونی افراتفری پیدا نہ ہو۔ غالب امکان یہی ہے کہ جسٹس جہانگیری کے فیصلے بدستور مؤثر رہیں گے، الا یہ کہ کسی مخصوص مقدمے میں انصاف کے تقاضے اس کے برعکس ہوں۔
اسی طرح لاء جرنلز میں شائع ہونے والے فیصلے، جو بطور نظیر استعمال ہوتے رہے ہیں، اپنی قانونی حیثیت برقرار رکھیں گے، کیونکہ نظیر کا انحصار فیصلے کی قانونی منطق اور اصول پر ہوتا ہے، نہ کہ صرف فیصلہ دینے والے جج کی ذاتی حیثیت پر۔
اس مقدمے کا ایک حساس ادارہ جاتی اور اخلاقی پہلو بھی ہے۔ یہ تاثر کہ جسٹس سرفراز ڈوگر جن کے خلاف جسٹس طارق جہانگیری نے سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل، وفاقی آئینی عدالت میں رٹ دائر کر رکھی تھی اسی مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ تھے، کم از کم مفادات کے تصادم کا سوال ضرور پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ عدالتی فیصلے نیت کی بجائے قانون کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں، مگر یہ اصول بھی مسلمہ ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
آخرکار، یہ معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جانا تقریباً ناگزیر دکھائی دیتا ہے، جہاں اس بنیادی آئینی سوال کا حتمی اور واضح جواب دیا جانا ضروری ہے کہ آرٹیکل 199 اور آرٹیکل 209 کے درمیان اصل حدِ فاصل کیا ہے؟ اگر اعلیٰ عدلیہ نے اس ابہام کو دور نہ کیا تو مستقبل میں ہر جج کی تقرری ایک ممکنہ رٹ پٹیشن کے رحم و کرم پر ہو سکتی ہے۔
جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری جعلی ہے یا اصلی، اسکا فیصلہ صرف اور صرف متعلقہ آئینی فورم یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کو طے کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ فیصلہ کسی ایک جج یا ایک ڈگری کا معاملہ نہیں بلکہ آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور ادارہ جاتی احتساب کے درمیان نازک توازن کا کڑا امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی صرف اسی صورت ممکن ہے جب فیصلے قانون کی روح، شفافیت اور غیر جانبداری کے اصولوں کے عین مطابق کیے جائیں۔

