Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Rape Case Ka Drop Scene

Rape Case Ka Drop Scene

ریپ کیس کا ڈراپ سین

پنجاب کالج لاہور میں زیادتی کے مبینہ کیس کو لیکر چند دنوں سے پنجاب بھر میں طلباء احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پنجاب حکومت اسے فرضی واقعہ اور سازش قرار دے کر طلباء کے خلاف سخت کریک ڈاؤن سے احتجاج ختم کرنے کی کوششوں میں مگن ہے۔ جس میں طلباء کی شہادتیں، زخمیوں اور گرفتاریوں کی خاصی تعداد کے باجود ناکامی کے بعد جمعہ کو پنجاب بھر میں چھٹی دی گئی ہے۔

مریم نواز کی جانب سے بدھ کو ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں زرتاج گل کی بہن کو اور طالبہ کو ساتھ بٹھا کر یہ بتایا گیا کہ بچوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ریپ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں ہے۔

یہاں واردات سمجھیے، لاہور میں دو واقعات پیش آئے تھے۔

ایک واقعہ لاہور کالج فار وویمن میں پیش آیا جہاں بچیوں کی جانب سے شکایت تھی کہ مرد عملے کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایات آ رہی ہیں لہذا تمام مرد عملے کو تمام کیمپس سے باہر رکھا جائے۔ اس بنیاد پر طالبات نے احتجاج کیا تو وائس چانسلر کی جانب سے سب سے سینیئر پروفیسر شبنم گل کو ہراسمنٹ کمیٹی کی کنوینیر بنایا گیا۔ انہوں نے طالبات کو کہا کہ یہاں آپ کو انصاف نہیں ملے گا بلکہ معاملہ کمیٹی کے سامنے اٹھائیں اور احتجاج نہ کریں جس پر طالبات بھڑک گئیں اور انہوں نے مزید زور اور شور سے احتجاج کیا جس پہ معاملہ اوپر گیا اور کالج کو سوموار تک بند کر دیا گیا ہے اور شبنم گل کو بھی برطرف کیا گیا ہے۔

دوسرا واقعہ پنجاب کالج میں پیش آیا جہاں ایوننگ کلاسز میں لڑکی کو گاڑی کی فیس کے بہانے بلوایا گیا اور مبینہ طور پر گاڑی کے ڈرائیور، گارڈ اور متعلقہ کسی فرد نے مل کر بیسمنٹ میں ایک طالبہ کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد چیخوں کی آواز سن کر وہاں ٹیچرز بھی آ گئیں اور انہوں نے ایمبولنس بلوائی اور لڑکی کو حالت غیر میں ہسپتال شفٹ کیا گیا۔ طالبات کا الزام ہے کہ تین دن تک کالج کی پرنسپل نے طالبات کو دھمکایا کہ جو اس پر آواز اٹھائے گا اسے کالج سے نکال دیا جائے گا۔ بعد ازاں خبر باہر آنے پر طلباء نے احتجاج کیا تو یہ احتجاج پھیلنے لگا جس پر پنجاب حکومت نے پینترے بدلنے شروع کر دیے۔

اگر بچوں کا احتجاج غلط تھا تو یقیناََ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی لیکن حیران کن طور پر کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سارا فرضی واقعہ ہے۔ مبینہ طور پر والدین کو دھمکایا جاتا ہے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور بچوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت کی ترجمان کی جانب سے فرضی واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب پنجاب حکومت کے وزیر تعلیم کالج کا دورہ کرتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ سی سی ٹی وی فوٹیج غائب ہو چکی ہے اور ریپ واقعہ کی بھی تصدیق کرتے ہیں، وہ پرنسپل کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے انہیں معطل کرتے ہیں اور کالج کو بھی بند کر دیتے ہیں۔ یقیناً اس معاملے میں حکومت نے انھیں اعتماد میں نہیں لیا تھا جہاں سے شکوک و شہبات اٹھتے ہیں۔۔

مبینہ طور پر پنجاب حکومت کی جانب سے والدین کو بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اپنی بچی کی عزت بچانی ہے تو ہمارا ساتھ دیں۔ ماسک میں دو لوگوں کو بلا کر ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروائے جاتے ہیں کہ لڑکی سیڑھیوں سے گری تھی۔ اس سے پہلے لڑکی کا وجود ہی افسانہ قرار دیا جاتا رہا۔ حکومتی ترجمان عظمی بخاری اسمبلی کے اندر کہتی ہے کہ لڑکی نے معاشرے میں رہنا ہے لہذا اس معاملے کو چھیڑ کر اسے بدنام نہ کیا جائے۔

مریم نواز اس کے بعد عینی شاہد اپنے ساتھ بٹھاتی ہے اور شبنم گل کو مبینہ طور پر اس کی نوکری واپس دلوانے کے وعدے پر بلیک میل کرکے اپنے پاس بٹھاتی ہے اور پھر ایک بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا لہٰذا شبنم گل کی نوکری بحال ہونی چاہیے۔

اب یہاں واردات دیکھ لیں کہ شبنم گل ایک دوسرے کالج کی پروفیسر ہے اور ایک دوسرے کالج میں الگ واقعے کی ہراسمنٹ کمیٹی کی کنوینئر ہے جن کا پنجاب کالج کے واقعے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

دوسری جانب جو عینی شاہد ہوتی ہے وہ خود یہ کہتی ہے کہ میں عینی شاہد نہیں ہوں بلکہ وہ اور لڑکی ہے جس پہ مریم نواز اس کا مائیک بند کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کوئی گواہ ہے ہی نہیں، صرف پروپیگنڈا تھا۔ اس حرکت نے بھی شکوک و شہبات کو مزید گہرا کیا ہے۔

مریم نواز صاحبہ جج بن کر فیصلہ سنانے کے بجائے سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا کے حوالے کر دیتیں تو اس سکرپٹڈ پریس کانفرنس کی ضرورت نہ پڑتی۔

مریم نواز نے متاثرہ بچی کے بارے میں یہ بھی کہا کہ بچی کا ریپ نہیں ہوا بلکہ وہ پاک صاف ہے۔ ریپ کا شکار ہونے والے مظلوم خواتین کے متعلق ہمارا معاشرتی رویہ بھی اکثر اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جہاں ریپ ہونے والی وکٹم کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس کی عزت چلی گئی ہے حالانکہ عزت اس درندے کی جاتی ہے جو زیادتی کرتا ہے۔ کیا مریم نواز یہ کہنا چاہتی ہے کہ ریپ کی وکٹمز پاک صاف نہیں ہوتیں؟ یہ انتہائی سطحی سوچ ہے جس کی وجہ سے والدین ریپ کے بعد اکثر واقعات اس خوف سے رپورٹ نہیں کرتے کہ پھر کہا جائے گا کہ بچی کی عزت چلی گئی ہے اور کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا۔ ریپ وکٹم کو نارمل اور باعزت انسان تسلیم نہیں کیا جاتا جس کا نفسیاتی اثر ساری زندگی اس پہ رہتا ہے۔

قصہ مختصر مریم نواز بطور خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب، نہ صرف بچیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں بلکہ ایسے واقعات پر پردہ ڈال کر اور حکومتی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے دباؤ کے ذریعے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے انصاف کے راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔

پنجاب حکومت نے یہ بیانیہ بنایا ہے کہ یہ سب کچھ تحریک انصاف نے کروایا لیکن واقعہ پنجاب کالج کے اندر ہوا ہے اور احتجاج بھی اسی کالج کے طلبہ و طالبات نے کیا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اسی کالج کی پرنسپل نے غائب کی ہے اور سٹوڈنٹس کو بھی اسی نے دھمکایا ہے اور پنجاب بھر میں پرامن احتجاج کرنے والے سٹوڈنٹس پر وحشیانہ کریک ڈاؤن خود پنجاب حکومت نے کروایا ہے۔ تو اس سب میں تحریک انصاف کہاں ہے؟

Check Also

Kabul Ki Punjab Se Dushmani Rauf Klasra Ki Zubani

By Syed Abdul Hasib