Imran Khan Ke Pas Ab Options Kya Hain?
عمران خان کے پاس اب آپشنز کیا ہیں؟
پرسوں پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن تھا۔ ایک بار پھر نظریہ ضرورت جیت گیا اور قوم ہار گئی۔
اگر آپ نے سپریم کورٹ کی ساری کاروائی ملاحظہ کی ہے تو پھر اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ کل کے فیصلے میں نئے الیکشن کا ذکر ہونا تھا۔ سرعام یہ بات کر دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ چھوٹی جماعتوں کا غیر فطری اتحاد ملک کےلیے نقصان دہ ہو گا۔ اسی طرح دوبارہ سے تحریک عدم اعتماد سے ملک میں انتشار ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ پھر فیصلہ محفوظ ہوا اور ساڑھے سات بجے سنانے کا فیصلہ کیا گیالیکن پھر اچانک سکرپٹ تبدیل ہو گئی۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہہ دیا کہ تین ماہ میں الیکشن نہیں کروا سکتے بلکہ اکتوبر تک بات کو لے گیا۔ کسی تیسری پارٹی کے حکم پہ عدالت میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا جاتا ہے اور پھر فیصلہ مکمل بدل جاتا ہے۔ وہ ججز جو دن کو کچھ اور کہہ رہے تھے، انھوں نے فیصلے کو اس غیر فطری انداز میں بدلا جیسے فیصلہ خود شہباز شریف نے ٹائپ کیا ہو۔ اس بھونڈے فیصلے کے خلاف پانچ میں سے کسی ایک جج کا بھی اختلافی نوٹ نہیں آتا اور پانچ صفر سے فیصلہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب اتفاق نہیں۔
اب یہ طے ہے کہ عمران خان کے خلاف قانون شکنی کا مقدمہ بھی دائر کیا جا سکتا ہے اور اسے منظر سے ہٹانے کی کوششیں ہوں گی۔ بیرونی سازش کا بیانیہ پیچھے کر دیا جائے گا اور قوم کو ٹرک کی نئی بتی کے پیچھے لگایا جائے گا۔ لیکن یاد رکھیں میرے پاکستانیو! اس بار ہم نے مایوس ہو کر میدان سے بھاگنے کے بجائے اپنی آزادی اور خودمختاری کا تحفط کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے عجیب و غریب فیصلے میں عمران خان سے تمام آئینی آپشن دانستہ طور پر چھین لیے ہیں اور ان کو بیڑیوں میں جھکڑ کر امریکی غلامی کے آگے ڈال دیا گیا ہے۔
عدالتی کاروائی کے اندر اس حد تک مداخلت کی گئی ہے کہ اجلاس کب بلانا ہے، کیسے بلانا ہے؟ ووٹنگ کا عمل، تمام منحرف ارکان کو ووٹنگ کا حق، سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے آئینی اختیارات کا خاتمہ، صدر اور وزیر اعظم کے آئینی اختیارات کا خاتمے سمیت ایسی تمام چیزیں ڈال دی گئی ہیں جنھیں پڑھ کر لگتا ہے کہ جج صاحبان نے تکلف ہی کیا ہے ورنہ وہیں سے شہباز شریف کو وزیر اعظم ڈکلیئر کر دیا جاتا تو کیا فرق پڑنا تھا؟ خیر اب عمران خان کے پاس اس وقت دستیاب آپشن اور ان کے اثرات پہ تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔
پہلا پارلیمان کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ وہی اسمبلی اجلاس بلا سکتا ہے۔ بھارت کی طرح یہاں بھی صدر اسمبلی کی کاروائی میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کو کالعدم قرار دے سکتا ہے یہاں تک کہ ججز کو بھی ہٹا سکتا ہے۔ ایمرجنسی بھی نافذ کر سکتا ہے۔ لہذا اگر عمران خان نے آئینی بحران جو مزید گہرا گرنے کا پلان بنایا اور نئے الیکشن کی جانب بڑھنے کی ٹھان لی تو صدر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پارلیمان میں صریح خلاف ورزی کے تناظر میں کالعدم قرار دے سکتا ہے کیونکہ پارلیمان کے معاملے میں وہ سپریم کورٹ کو بھی اوور رول کر سکتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں عمران خان یہ آپشن استعمال نہیں کریں گے۔
انھوں نے ایک دن پہلے پارلیمانی کاروائی میں عدالتی عدم مداخلت کے فیصلے کے باجود دوسرے دن نوٹس لینے پہ بائیکاٹ کرنے کے بجائے کیس لڑا۔ پھر ڈپٹی اسپیکر کی کاروائی کے محرک کو نظر انداز کر کے ٹیکنیکل چیزوں پہ فوکس کرنے کے باجود انھیں ردعمل نہیں دیا۔ یہ بھی ان کا حوصلہ اور ظرف ہے کہ ایک اشتہاری کے ضمانتی اور لٹیرے کو عدالت بلا کر اس سے رائے لیکر اس کے عین مطابق فیصلہ کر دیا گیا اور عمران خان نے تسلیم کیا۔ وہ عدالت کے فیصلوں کو شروع دن سے قبول کرتے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی مثال نہیں ملتی۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ عمران خان فوراً الیکشن کی جانب بڑھنے کےلیے اپنے تمام ارکان کے استعفے جمع کروا دیں۔ اتنی زیادہ سیٹوں پہ ضمنی الیکشن ممکن نہیں ہو گا اور بات عام انتخابات پہ ہی جائے گی۔ فرض کرتے ہیں کہ مکا اچار وہاں ہٹ دھرمی کرتے ہوئے ضمنی انتخابات کرواتا ہے تو عمران خان اپنے ووٹرز کو اس نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کروا کر ٹرن آؤٹ اتنا کم کر سکتا ہے کہ الیکشن خودبخود کالعدم ہو جائے اور پھر بات عام الیکشن تک جائے گی۔
تیسرا آپشن یہ ہے کہ عمران خان اپوزیشن میں آئیں اور جوبایڈن جونیئر حکومت کو تگنی کا ناچ نچوائیں۔ مکس اچار کا فوکس لوٹنے پہ ہو گا اور وہ معیشت کو پھر سے پٹڑی سے اتارے گی تو اس کو آڑے ہاتھوں لے۔ پارلیمان میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے وہ جوبایڈن جونیئر سرکار کےلیے ہر جگہ مشکلات پیدا کر کے حکومت کو چلنے نہیں دیں گے اور نئے الیکشن کا مطالبہ زور پکڑتا جائے گا۔
چوتھا آپشن جارحانہ ہے۔ عمران خان کشتیاں جلا دیں اور میدان میں آ جائیں۔ ملک کو غلامی سے بچانے کےلیے کچھ عارضی کمپرومائز کریں اور تاجر برادری کے ساتھ مل کر شٹر ڈاؤن ہڑتالیں کریں۔ اوورسیز پاکستانیوں کو کہہ کر ترسیلات زر رکوا لیں اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے پیسے نکال لیے جائیں۔ سول نافرمانی تحریک شروع کی جائے اور قوم تمام سرکاری اداروں کا سوشل بائیکاٹ کر دے۔ اس قدم سے دو تین دنوں میں ہی حکومت زمین پہ آ جائے گی اور ملک چلانا ناممکن ہو جائے گا۔
عمران خان unpredictable ہیں۔ ان کے پاس ڈھیر سارے آئینی آپشن بھی ہوں گے اور وہ راستہ نکال رہے ہوں گے۔ عدالت کی موجودہ کاروائی سے حکومت کو تمام ائینی کمزوریاں بھی پتہ چل گئی ہیں۔ وہ اسی طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے دوبارہ سے نئے سرپرائز لا سکتے ہیں۔ پھر سے معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ کوئی پتہ نہیں کہ وہ کس وقت کیسا فیصلہ لے لیں؟ وہ سب کو سرپرائز کر سکتے ہیں۔ بہر کیف ان سے بہترین فیلصہ ساز اس ملک میں موجود بھی نہیں ہے۔
ان شاءاللہ وہ جو بھی فیصلہ لیں گے، وہ ملک و قوم کو امریکی تسلط سے بچانے کےلیے معاون ثابت ہو گا۔ ان شاءاللہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑیں گی۔