Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Imran Khan Ghar Nahi Baithenge

Imran Khan Ghar Nahi Baithenge

عمران خان گھر نہیں بیٹھیں گے

عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر انھیں ہٹایا گیا تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں گے۔ بظاہر یہ معمولی سی دھمکی لگتی ہے لیکن خطے کے حالات، ملکی معاملات، اپوزیشن کا رویہ اور عوامی ردعمل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ خان صاحب کو ہٹانے کےلیے بڑا مضبوط جال بچھایا گیا ہے اور وہ اس سب کے خلاف ایک طاقتور مہم چلانے والے ہیں۔ اس تناظر میں تو پھر یہ ایک ایسی مہم ہونی چاہیے جو پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ ملک کی مقتدرہ قوتوں اور بیرونی ایجنڈوں کے خلاف ایک بھرپور مہم چلا پائیں جس کے نتیجے میں وہ ملک کی بھاگ ڈور پھر سے سنبھال پائیں۔

اگر عمران خان کے سیاسی کیریئر کو دیکھا جائے تو اس میں کسی قسم کی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے پورے بائیس سال کی جدوجہد کی ہے جو انتہائی مشکل حالات تھے۔ وہ اس وقت بھی پرامید نظر آئے جب ان کے پاس اسمبلی میں ایک سیٹ ہوتی تھی۔ انھوں نے اس وقت بھی وزیر اعظم سے کم کے خواب نہیں دیکھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے واحد شخص ہیں جنھوں نے خود پارٹی بنائی اور پھر اس پارٹی کو دو مضبوط پارٹیوں کا سحر توڑ کر اقتدار تک پہنچایا۔

بھٹو نے بھی اپنی ہی جماعت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا لیکن ان کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ وہ اقتدار سے نکل کر ایوب کے خلا کو پر کر گئے۔ عمران خان کا معاملہ ان سے بلکل مختلف ہے۔ انھوں نے ایک پارٹی بنائی۔ پھر اپنے وقت کی تمام طاقتور پارٹیوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بائیس سال بعد اقتدار تک پہنچے۔ انھوں نے نہ تو کسی ڈکٹیٹر سے پارٹی بنوائی، نہ پہلے سے بنی پارٹی پہ ان کو ٹکٹ مل گیا۔ ان کی جدوجہد گراؤنڈ لیول سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جڑیں عوام میں ہیں۔ اسی لیے وہ تمام طاقتوں کےلیے خطرناک ہیں۔

نوے کی دہائی میں جس وقت عمران خان نے پارٹی بنائی اس وقت سب ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ ایک مشہور کرکٹر تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عوام کرکٹر یا اداکار انھیں لیڈر بنا دیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ملک میں پہلے سے موجود انتہائی مضبوط پارٹیوں اور شخصیات کی موجودگی میں ان کی سیاست ایک مذاق سے کم نہ تھی۔ انھوں نے سیاست میں اوپر آنے کے تمام روایتی طریقہ کار کو خیر آباد کہا اور اپنی الگ ہی سیاست لے کر آئے۔

انھوں نے اعلان کیا کہ ابھی ان کا ووٹر جوان نہیں ہوا۔ انھوں نے وہ مسائل چنے جو پاکستان میں مقبول نہیں تھے۔ انھوں نے ایک پائیدار جدوجہد کی اور قوم میں کرپشن کو بطور برائی متعارف کروایا اور پاکستان کی سالمیت کو پہلی ترجیح دے کر دنیا کے تمام ممالک سے برابری کے تعلقات بنا کر ملکی وقار قائم کرنے پہ زور دیا۔ پاکستان کی روایتی سیاست الیکٹیبلز کے گرد گھوم رہی تھی لیکن انھوں نے عوامی طاقت حاصل کر کے اقتدار تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انھیں بہت سی مشکلات آئیں لیکن وہ ہمت نہیں ہارے۔

بالآخر ان کے ووٹر کا شناختی کارڈ بن گیا اور ان کا پیغام گھر گھر پہنچ گیا۔ یوں انھوں نے بائیس سال کی طویل اور پائیدار جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کیا۔ اس دوران انھوں نے 2013 کے تجربات سے سیکھتے ہوئے سیاست میں الیکٹبلز کا استعمال بھی کیا۔ شاید یہ ان کی غلطی تھی کیونکہ ان کی سیاست کو یہ سوٹ نہیں کرتی تھی۔ ان کی سیاست عوامی مقبولیت اور اصولوں کے گرد گھومتی ہے۔ الیکٹبلز کے تڑکے نے اس کو کمزور کیا جس کا فایدہ اٹھا کر بالاخر روایتی سیاست دانوں نے ان کی کرسی کمزور کر دی ہے لیکن یہی ان کی فاش غلطی تھی۔

اب عمران خان دوبارہ سے اپنی پرانی سیاسی فارم میں آ چکے ہیں۔ ان کے پاس جو عوامی طاقت ہے وہ دوبارہ سے یکجا ہو چکی ہے۔ وہ تمام طاقتیں جنھیں عمران خان نے کرپٹ متعارف کروایا ہے وہ ایک پلیٹ فارم پہ اکھٹی ہو کر ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کر چکی ہیں۔ امریکہ سے برابری کے تعلقات کی ان کی جدوجہد اور آزاد خارجہ پالیسی کی بدولت ان کی حکومت مغرب کےلیے بھی ناپسندیدہ بن چکی ہے اور اس چیز نے ان کی ملک میں مقبولیت میں دگنا اضافہ کی کیا ہے۔ مذہبی طبقہ بھی ان کی ناموس رسالت کےلیے کوششوں کے تناظر میں ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ یوں وہ اس وقت اس قدر مقبول ہیں جتنے وہ کبھی نہ تھے۔

اس وقت وہ مقتدرہ سمیت ہر قوت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ عوامی مقبولیت کے بل بوتے پہ وہ اس بار پھر سے تاریخ کا دھارا بدلنے جا رہے ہیں۔ 27 مارچ کا جلسہ اس جدوجہد کا آغاز ہے۔ ان کے جانے کی صورت میں یہ ایک صبر آزما جدوجہد ثابت ہو گی جس میں حتمی کامیابی انھی کی ہو سکتی ہے کیونکہ ہر حال میں لڑنا جانتے ہیں۔ سوئے ہوئے شیر کو جگا کر مخالفین نے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی ماری ہے۔

عمران خان ایک بار پھر لڑیں گے اور اپنی مخصوص انداز میں بے جگری سے لڑیں گے۔ ان کی جدوجہد کے دوران بہت سی مشکلات آئیں گی اور ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب لگے کہ ان کی جدوجہد مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ وہ ہر سیچویشن میں کم بیک کرنا جانتے ہیں لہذا سب گھبرا بھی جائیں تو وہ نہیں گھبرائیں گے۔ ابھی اپنے پارٹی ارکان بک چکے ہیں، ایم کیو ایم نے اپوزیشن کو ساتھ دینے کی یقین دہانی کروا دی ہے اور ق لیگ بھی اڑان بھرنے کےلیے تیار ہے لیکن ان کا اعتماد ایک الگ ہی لیول پہ ہے۔

وہ انتہائی پراعتماد ہیں اور ہر دو صورتوں میں جدوجہد کےلیے تیار ہیں۔ انھوں نے لگاتار جلسوں کی مدد سے قوم کو بھی تیار کر لیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہو یا ناکام۔۔ وہ دونوں صورتوں میں اسے اپنے لیے استعمال کریں گے اور بالآخر دونوں صورتوں میں ان کی جیت واضح نظر آ رہی ہے۔ انھوں نے ٹھان لیا ہے اور کہ وہ قوم کو غلامی سے نجات دلا کر رہیں گے۔ یہی ان کی جیت ہو گی۔ بقول فیض

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

Check Also

313 Musalman

By Hussnain Nisar