Bara Dushman Bana Phirta Hai
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے
شہباز گل کو صرف ادارے کو ان کا حلف یاد دلوانے کے جرم میں بغیر کسی ایف آئی آر کے گاڑی کے شیشے توڑ کر اور ڈرائیور کو زد و کوب کر کے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ شہباز گل کی ویڈیو بنانے والے لڑکوں سے موبائل چھین کر ویڈیو ڈیلیٹ کروائی جاتی ہے اور دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر کوئی ویڈیو اپلوڈ کرے گا تو اسے بھی یونہی اٹھا لیا جائے گا۔ میڈیا پہنچتا ہے تو شہباز گل کا ڈرائیور اسی حالت میں ان کو بتاتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔
یہ بات کرنا اتنا بڑا جرم بن جاتا ہے کہ اس پہ بھی غداری کا مقدمہ ہو جاتا ہے اور اسے جان بچاتے ہوئے فرار ہونا پڑتا ہے۔ شہباز گل کے ڈرائیور کے گھر میں چھاپا مارا جاتا ہے۔ گھر میں اس کی بیوی اور ایک چھوٹی بچی موجود ہوتی ہے۔ بے غیرتی کے آخری لیول کو کراس کرتے ہوئے اس کی بیوی کو اٹھا کر تھانے لے جایا جاتا ہے اور بچی گھر میں بلکتی رہتی ہے۔ اس کی بیوی کو تھانے لے جانے کے بعد اس پہ بھی سہولت کاری کا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے اور وہ ننھی جان ماں سے جدا ہو کر عدالت میں چیختی رہتی ہے۔
شہباز گل نے جس چینل پہ حلف یاد کروانے والا بیان دیا ہوتا ہے اس چینل کو بغیر کسی نوٹس کے بند کر دیا جاتا ہے۔ چینل وضاحت جاری کرتا ہے کہ اس انفرادی بیان سے چینل کا تعلق نہیں کیونکہ ادارے کا کام سب کا مؤقف سامنے رکھنا ہوتا ہے اور اتنی سمپل بات تو سب سمجھتے ہیں کہ کسی کا انفرادی مؤقف ادارے کا مؤقف نہیں ہوتا۔ کل آپ کسی کے کالم کو دیکھ کر اخبارات بند کر دیں گے۔
بات یہی نہیں رکتی بلکہ اس چینل کے مالکان اور رجیم چینج کے خلاف بولنے والوں پہ غداری کے مقدمے بن جاتے ہیں۔ آزادی صحافت والے دانشوروں کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں۔ ایک ہی دن میں اپنے دو شہیدوں کو کندھا دینے والوں پہ اپنی ہی سر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ ملک کا المیہ دیکھیں کہ صحافی آزادی اظہار رائے کا گلہ گھٹنے اور انتقامی کاروائیوں کے خوف سے اپنا ملک چھوڑنے پہ مجبور ہو گئے ہیں اور یہاں اس قدر المیے پہ افسوس کے بجائے انتہائی ڈھٹائی سے مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ ان کی فسطائیت کی وجہ سے صحافی ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ یہ فاشزم نہیں تو پھر فاشزم کیا ہوتا ہے؟
یہ وقت بھی گزر جائے گا لیکن ہم یہ سب یاد رکھیں گے۔ پی ڈی ایم کی نام نہاد جمہوری پارٹیوں اور آزادی صحافت اور انسانیت پسندی کے علمبردار دانشوروں کو ہم یاد رکھیں گے۔ انشاءاللہ وقت پلٹے گا تب یہی نیوٹرل ان کو ٹھڈے ماریں گے یا پھر انھی غیر جمہوری پارٹیوں پہ مشکل وقت آیا تو ہم بھی نیوٹرل ہوں گے۔ ہمارا ان نام نہاد آزادی صحافت کے علمبرداروں، انسانی حقوق کے چیمپئین اور جمہوریت کے سرخیلوں سے اب کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی چوکیداروں کی وردی میں ملبوس ان غنڈوں اور لٹیروں سے کوئی تعلق ہے۔ ہم ان کے معاملات میں ہمیشہ نیوٹرل رہیں گے۔
آج سے کچھ صدیوں بعد جب مؤرخ لکھے گا کہ دنیا کا ایک ایسا ملک بھی تھا جس کے پاس چھٹی بڑی آرمی تھی۔ اس ملک کے پاس 1300 کے قریب جدید جنگی طیارے تھے۔ جس کے پاس کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے جدید 328 ہیلی کاپٹر تھے جن میں 48 لڑاکا پیلی کاپٹر تھے۔ جس کی فضا میں بھی طاقت تھی اور اس کے لیے بیک وقت ڈیڑھ سو آپریشنل ہوائی اڈے تھے۔ جس کے پاس بیک وقت دو ہزار سے زائد جدید جنگی ٹینک تھے۔
جس کے پاس 2600 بکتر بند گاڑیاں تھیں۔ جس کے پاس ساڑھے بارہ سو توپیں تھیں جن میں تین سو سے زائد خودکار توپیں تھیں جو چند ممالک کے پاس ہی ہیں۔ جس کے تین سو کے قریب بحری اثاثے تھے۔ جس کے پاس پانچ جدید جنگی آبدوزیں اور 14 فریگیٹ تھی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس کے پاس دیگر تباہ کن ہتھیاروں کے علاؤہ ایٹمی میزائل بھی تھے۔
اس ملک کو ایک دودھ پیتی بچی سے خطرہ تھا اور تاریخ انسانی میں یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ باپ پہ لگے الزام کی وجہ سے ملکی عدالتوں نے اس بچی کو قید کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ ریاست دودھ پیتے بچوں سے ڈرتی تھی۔ اس کی طاقتور ترین آرمی کا مورال پندرہ سالہ بچوں کے ٹویٹ سے ڈاؤن ہو جاتا تھا اور اسے بحال کرنے کے لیے یہ ایک سال کی بچی کو جیل میں بھجوا دیتے تھے۔
آج سے کچھ صدیوں بعد جب مؤرخ یہ سب لکھے گا تو لوگ اس بات کو افترا کہہ کر ماننے سے انکار کر دیں گے لیکن آج ہم اس فاشسٹ رجیم کی وجہ سے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس پہ آزادی، انسانیت پسندی، جمہوریت، انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں کرنے والے بالکل خاموش ہیں جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
خدا کی قسم جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ واقعات بتائیں گے تو وہ بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ہم اخلاقی زوال کے شکار ان شدت پسندوں کی کارستانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حیرت تو ہمیں بھی ہوتی ہے لیکن ہم اس فاشسٹ رجیم کی شدت پسندی سہہ سہہ کر اس جبر کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
جب نواز شریف نے بلاول کی ماں بینظیر پہ کیسز بنوا کر اس کو عدالتوں کے چکر لگوائے۔ اس کے باپ زرداری کو کراچی سے بکتر بند گاڑی میں ڈالا جاتا اور وہ اس گرمی اور حبس میں کراچی سے لاہور پہنچتا۔ بینظیر بلاول اور اس کی بہن کو اٹھائے ہوئے جیلوں میں پھرتی تھی۔ کبھی وہ کراچی پہنچتی تو مقدمہ لاہور شفٹ ہو چکا ہوتا اور کبھی وہ لاہور ہوتیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے بلاوا آتا۔
کبھی وہ لاہور میں جاتی تو جسٹس قیوم کے ظلم کا نشانہ بنتی اور جب وہ مقدمہ شفٹ کروا کے راولپنڈی پہنچتی تو وہاں بھی جسٹس قیوم بیٹھا ہوتا۔ بلاول نے اس کرب کو بڑے نزدیک سے دیکھا ہے۔ اس نے اپنی ماں کو جیل کے باہر اینٹ پہ بیٹھ کر روتے دیکھا ہے۔ وہ یہ دکھ سمجھ سکتا ہے۔ جب ایک عدالت سے کرپشن میں سزا یافتہ مریم نواز کی ضمانت منسوخ ہوئی اور اسے دوبارہ جیل پہنچایا گیا تو بلاول نے اسمبلی میں چیختے ہوئے کہا تھا کہ
"کیا تم اتنے بے غیرت ہو گئے ہو جو ایک عورت کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا۔ "
اگرچہ ایک مجرمہ کا ٹھکانہ جیل ہی ہوتا ہے جس پہ کرپشن کیسز ثابت ہو چکے تھے لیکن ہم نے بلاول کے اس غصے کو اس کے ماضی کے ساتھ منسوب کیا کہ اسے مریم نواز کی گرفتاری میں اپنی ماں اور چھوٹی سی بہن کی بے بسی یاد آئی ہو گی۔
آج بلاول کی اپنی حکومت ہے۔ آج وہ اسی نواز شریف کے بھائی کے ساتھ مل کر وہی کر رہا ہے جو نواز شریف نے اس کی ماں اور اس کے ساتھ کیا تھا۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ بلاول یہاں بھی چیخے گا کہ کیا تم اتنے بے غیرت ہو گئے ہو۔ لیکن لگتا ہے اب بلاول صاحب خود ہو گئے ہیں۔ کس نے سوچا تھا کہ ماں کی بے بسی پہ کڑھنے والا بچہ انھی فاشسٹ کرداروں کے ساتھ مل کر معصوم بچیوں کے ساتھ وہی انسانیت سوز سلوک کرے گا۔