Saneha e Bondai
سانحہِ بونڈائی

سڈنی کے معروف بونڈائی ساحل پر یہودی اجتماع کے دوران پیش آنے والا ہولناک فائرنگ کا واقعہ نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سنجیدہ سکیورٹی سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ اس حملے میں پندرہ افراد کی ہلاکت نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی، جبکہ واقعے کے محرکات، حملہ آوروں کے پس منظر اور ممکنہ عالمی روابط پر تحقیقات مسلسل وسعت اختیار کر رہی ہیں۔
آسٹریلوی حکام کے مطابق اس حملے میں ملوث مرکزی کردار ساجد اکرم اور ان کا بیٹا نوید اکرم تھے۔ ابتدائی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ساجد اکرم بھارتی شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتے تھے اور تقریباً 27 برس قبل تعلیم کے لیے آسٹریلیا منتقل ہوئے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے مستقل طور پر وہیں رہائش اختیار کر لی۔ بھارتی پولیس کے مطابق ساجد اکرم کا اپنے آبائی خاندان سے رابطہ محدود تھا اور اہلِ خانہ کو ان کے کسی ممکنہ انتہاپسندانہ رجحان کا علم نہیں تھا۔
تحقیقات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ واقعے سے کچھ عرصہ قبل ساجد اکرم اور ان کے بیٹے نے فلپائن کا سفر کیا تھا۔ فلپائنی امیگریشن حکام کے مطابق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ جبکہ نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن میں داخلہ لیا۔ دونوں نے جنوبی شہر ڈاواو کو اپنی آخری منزل ظاہر کیا، تاہم وہاں قیام کے دوران ان کی سرگرمیوں سے متعلق معلومات ابھی غیر واضح ہیں۔ ڈاواو اور اس سے ملحقہ علاقے ماضی میں شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے حساس تصور کیے جاتے رہے ہیں، جس کے باعث اس سفر نے تفتیشی اداروں کی توجہ مزید بڑھا دی ہے۔
آسٹریلوی حکام نے اس امر کی بھی تصدیق کی ہے کہ حملہ آوروں کی گاڑی سے داعش کے دو جھنڈے برآمد ہوئے، جبکہ بعض سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ساجد اور نوید اکرم نے داعش سے وفاداری کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے واضح کیا ہے کہ تاحال اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ یہ دونوں کسی منظم عالمی شدت پسند نیٹ ورک کا عملی حصہ تھے۔ ان کے بقول، دستیاب معلومات یہی ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کارروائی انفرادی سطح پر کی گئی۔
یہ پہلو بھی خاصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کہ نوید اکرم ماضی میں آسٹریلوی خفیہ ادارے ASIO کی نظر میں آ چکا تھا۔ سرکاری مؤقف کے مطابق 2019 میں اس کا جائزہ لیا گیا، تاہم اُس وقت اسے کوئی فوری یا فعال خطرہ قرار نہیں دیا گیا۔ اسی تناظر میں یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی معلومات کے باوجود اتنا بڑا حملہ کیسے ممکن ہوا۔
واقعے کے بعد آسٹریلیا میں یہود دشمنی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ نے اسلحہ قوانین کو مزید سخت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے، جس میں اسلحہ مالکان کے پس منظر کی جانچ، غیر ملکیوں کو اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی اور قابلِ اجازت ہتھیاروں کی اقسام کو محدود کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
دوسری جانب زخمی حالت میں گرفتار ہونے والا نوید اکرم اب کوما سے باہر آ چکا ہے اور حکام کے مطابق ہوش میں آنے کے بعد اس کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی۔ اسرائیل کی ایک خصوصی سپورٹ ٹیم بھی تفتیش میں معاونت کے لیے سڈنی پہنچ چکی ہے، تاہم آسٹریلوی حکومت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ تحقیقات شواہد اور حقائق کی بنیاد پر آگے بڑھائی جائیں گی۔
بونڈائی سانحہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ انتہاپسندی کی جڑیں سرحدوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ یہ واقعہ نہ صرف آسٹریلیا بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک وارننگ ہے کہ نظریاتی شدت پسندی، انفرادی انتہا پسندی اور انٹیلی جنس کے درمیان خلا کس طرح بڑے انسانی المیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں تحقیقات کے نتائج اس سانحے کے پس پردہ عوامل کو مزید واضح کریں گے، تاہم فی الحال یہ واقعہ عالمی سکیورٹی ڈھانچے پر ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

