Raftar e Maeeshat, IMF Muahida, Umeed Ya Azmaish?
رفتارِ معیشت، آئی ایم ایف معاہدہ، امید یا آزمائش؟

دنیا کی بدلتی ہوئی معاشی اور سیاسی سمتوں کے بیچ پاکستان کے لیے ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن مرحلہ سامنے آیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت دوسرے جائزہ اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) کے تحت پہلے جائزہ پر اسٹاف سطح کا معاہدہ (ایس ایل اے) ہوگیا ہے جس کے بعد پاکستان کیلئے 1.2 ارب ڈالر کی نئی قسط کی راہ ہموار ہوگئی۔ یہ معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد فنڈ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مالیاتی اور زری پالیسیوں کو مزید سخت کرے اور اجناس کی منڈیوں میں حکومتی مداخلت کو کم کرے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے میکرو اکنامک اشاریوں میں ہونے والی بہتری کا عکاس اور حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہر ہے۔ منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت ایک ارب ڈالر اور آر ایس ایف کے تحت 200 ملین ڈالر تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس طرح دونوں سہولتوں کے تحت مجموعی ادائیگیاں 3.3 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔
واشنگٹن سے جاری رپورٹ میں پاکستان کو بنیادی سرپلس 1.6 فیصد برقرار رکھنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ (GCD) کا ذکر نہیں البتہ یہ کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد معاملے پر گفتگو پبلک کیے جانے کا امکان ہے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد، عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مالیاتی اور زری پالیسیوں کو مزید سخت کرے اور اجناس کی منڈیوں میں حکومتی مداخلت کو کم کرے۔
پاکستان کی معیشت کو حالیہ سیلابوں کے باعث 822 ارب روپے کے بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن سے ملک کے 70 اضلاع میں 65 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ منصوبہ بندی اور اقتصادی امور ڈویژن کی سرکاری دستاویزات کے مطابق، زراعت اور انفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی تاریخ کے شدید ترین مون سون سیلابوں میں سے ایک کا سامنا ہے، جس سے انفراسٹرکچر، روزگار اور بنیادی خدمات کو تباہ کن نقصان پہنچا۔ ابتدائی تخمینوں میں نقصان 744 ارب روپے بتایا گیا تھا، جو اب بڑھ کر 822 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سیلابوں سے 229,763 مکانات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 59,258 مکمل طور پر تباہ اور 170,505 جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ آفت کے نتیجے میں 1,037 افراد جاں بحق اور 1,067 زخمی ہوئے۔
مذید برآں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے مطابق حکومت نجکاری کے عمل کو تیز کرنے اور مالی استحکام اور کارکردگی میں مزید بہتری لانے کے لئے پرعزم ہے۔ وزارت خزانہ سے جاری بیان کے مطابق وزیرِ خزانہ نے واشنگٹن ڈی سی میں فِچ ریٹنگز کے حکام سے ملاقات کی اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو B- کے ساتھ مستحکم آؤٹ لک دینے پر فِچ ریٹنگز کا شکریہ ادا کیا۔ دریں اثنا واشنگٹن ڈی سی میں فچ ریٹنگز کے عہدیدار، عالمی بینک کے صدر اجے بانگا اور برطانوی وزیر سے ملاقاتیں بھی کیں اور ایک گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق فچ کے عہدیداروں سے گفتگو میں تینوں بڑی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی درجہ بندی میں ہم آہنگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ نے فِچ ٹیم کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ طے پانے والے اسٹاف لیول معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا اور ٹیکس نظام، توانائی، نجکاری اور سرکاری اداروں میں کی جانے والی اصلاحات پر روشنی ڈالی۔ حکومت کے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے اور مالی استحکام اور کارکردگی میں مزید بہتری لانے کا عزم ظاہر کیا۔ نیز فِچ ٹیم کو چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈ کے اجرا کے عمل اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ تجارتی و ٹیرف مذاکرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ ملاقات کے آخر میں وزیرِ خزانہ نے فِچ ٹیم کے سوالات کے جوابات دیئے۔
یہ تمام حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی مالیاتی نظم و ضبط کے دائرے میں خود کو تیزی سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔ اگرچہ معاشی اصلاحات اور پالیسیوں کی سختی عوامی سطح پر وقتی مشکلات پیدا کر سکتی ہے، لیکن یہ اقدامات مالیاتی استحکام، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور بین الاقوامی ساکھ کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو نہ صرف آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی تحفظ کے دائرے کو بھی وسعت دینا ہوگی تاکہ کمزور طبقات معاشی دباؤ کا سامنا کر سکیں۔ بین الاقوامی منظرنامے میں اکتوبر 2025ء تک پاکستان کی معیشت ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑی ہے جہاں نظم، شفافیت اور استحکام ہی مستقبل کے استحکام کا ضامن بن سکتے ہیں۔

